وزیر اعظم نے کشمیریوں کو دلچسپ تجویز دی ہے۔ کوٹلی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ کشمیر جب پاکستان میں شامل جائے گا تو ہم کشمیریوں کو یہ حق دیں گے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ یعنی یہ فیصلہ کہ وہ پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں یا پھر آزاد ملک بننا چاہتے ہیں۔ تجویز ازحد معقول ہے لیکن ڈر ہے کہ کہیں یہ تجویز شادی بیاہ کے موقع پر بھی یار لوگ زیر عمل نہ لے آئیں۔ یعنی بے جوڑ نکاح کر دیا اور کہا کہ لو، اب نکاح ہو گیا ہے تو فیصلہ کر لو۔ ساتھ ساتھ رہنا ہے یا طلاق لینی ہے۔
٭کشمیری اس تجویز پر شاید حیران رہ گئے ہیں۔ شاید کا لفظ اس لئے لکھاکہ ابھی تک کشمیری قیادت کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ ہو سکتا ہے وہ ابھی یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہوں کہ خاں صاحب نے آخر کہا کیا ہے لیکن ادھر کچھ سیاسی جماعتوں کا تبصرہ ضرور سامنے آ گیا ہے۔ کسی نے اسے غیر معقول کہا ہے تو کسی نے اسے کسی نامعلوم ایجنڈے کی شق قرار دیا ہے۔ کسی کا خیال ہے یہ تیسرا آپشن ہے تو کسی نے اسے قومی موقف کی نفی کا نام دیا ہے۔ باقی سب کو چھوڑیے، تیسرے آپشن والی بات پر غور فرمائیں، یہ تیسرا آپشن ہی حل ہے تو پھر دوسرا آپشن پہلے کیوں؟ یعنی پہلے کشمیر بنے گا پاکستان، پھر بنے گا آزاد کشمیرستان۔
٭جماعت اسلامی کشمیر کاز کی علمبردار ہے اس نے نکاح کے بعد فوری طلاق کے اس آپشن پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ سنا ہے، سال گزشتہ سے کشمیر کے معاملے پر سہی ہوئی ہے۔ سال گزشتہ کا ماجرا کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ کشمیر پر کوئی بین الاقوایم سمپوزیم کرانے کی کوشش میں تھی کہ اوپر سے “سہماوا” آ گیا۔ اب اوپر کی وضاحت کرنے کا مت کہیے گا، بس سمجھ جائیے گا۔ رہا سہماوا تو یہ سہم سے ہے۔ گرائمر کے اعتبار سے غلط ہے یا ٹھیک لیکن سہماوا تو پھر سہماوا ہے۔
٭اپوزیشن بہرحال زیادہ اس معاملے پر غورو فکر نہ کرے۔ باوثوق طیور کی زبانی سال گزشتہ سے اڑتی اس خبر کو ذھن میں رکھیں کہ واشنگٹن کے وائٹ ہائوس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات میں یہ معاملہ، مستقل، بنیادوں پر “تہہ” ہو چکا ہے۔ اب ٹرمپ تو نہیں رہے ان کی جگہ ڈیمو کریٹ آ گئے لیکن کشمیر کا جو معاملہ تہہ چکا، اس کا پٹارا پھر سے کھلنے سے تو رہا۔ ویسے بھی ایک ولی صفت نے دو سال پہلے پراتھنا کی تھی کہ نریندر مودی الیکشن جیت جائیں کیونکہ وہ حکومت میں آئیں گے تو مسئلہ طے ہو گا اور وہ ہو گیا۔
٭وزیر اعظم کا یہ اعلان ہوشربا یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر منشور ہوا۔ یوم یکجہتی کی بھی عجب کہانی ہے۔ اس کے بانی قاضی حسین احمد مرحوم تھے۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے امیر کے طور پر یہ دن منانے کا اعلان کیا اور اس ک بعد میاں نواز شریف نے اس کی حمایت کر دی اور معاً بعد وزیر اعظم شہید بے نظیر بھٹو نے بھی اس کی تائید کر دی۔ یوں قومی اتفاق رائے سے یہ قومی دن بن گیا۔ لیکن اس کے بعد سے یہ دن جس انداز سے منایا جاتا ہے اس سے یہ شائبہ تک نہیں گزرتا کہ ہم کشمیر لینا چاہتے ہیں، بزور شمشیر یا بزور تقدیر۔ بلکہ یہ ایک جشن کا دن بن گیا۔ ویسے ہی جیسے 14اگست کا دن جشن کا ہوا کرتا ہے۔ جشن کے دن رومن امپائر میں بھی منائے جاتے تھے، جب اس کے زوال کی شروعات تھی اور مقبوضات و محروسات اس کے ہاتھ سے نکلے جاتے تھے۔
٭ضیاء الحق کے دور میں کشمیر بزور شمشیر کا نعرہ لگا اور پھر اس پر عمل بھی ہوا۔ بہت لمبی خونچکاں کہانی ہے۔ یہ ریاستی جہاد مشرف کے دور میں غیر ریاستی دہشت گردی بن گیا۔ پرویز مشرف اور ریفرنڈم میں ان کے پرجوش حامیوں نے ٓخر کار کہانی کو وہ موڑ دیا کہ کشمیر بزور شمشیر کے عزم کی جگہ کشمیر بذریعہ تقدیر نے لے لی۔
٭کشمیر اب کاز نہیں رہا، بات ہو گیا ہے اور بات بھی ایسی کہ اس کا مذکور ہی کیا، رات گئی بات گئی۔ مثال کے طور پر ایک وزیرنے کتنی کام کی بات کہی۔ فرمایا کہ سیکرٹ بیلٹ سے سینٹ الیکشن کرانا ہارس ٹریڈنگ ہے۔ اپوزیشن پیسے کا کھیل کھیلنا چا ہتی ہے۔ اسے پیسے کے سوا کوئی مطلب ہی نہیں۔ اپوزیشن کوئی کام کی بات نہیں کر سکتی تو کم از کم یہ بے کام کا سوال ہی پوچھ لے قبلہ، چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد میں ہارس ٹریڈنگ کس نے کی، الیکن احتیاط یہ کیجیے کہ سوال کسی وزیر سفیر سے ہی ہونا چاہیے کہیں وزیر اعظم سے پوچھ لیا تو وہ جھٹ سے جواب دیں گے، ذمہ دار سابقہ حکومت ہے۔
٭سال بھر پہلے برطانیہ کے ٹیبلائڈ اخبار”مرر” نے رپورٹ چھاپی تھی کہ شہباز شریف نے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی ہے۔ اس پر پی ٹی آئی کی حکومت نے خوب جشن منایا کہ اربوں کی کرپشن کے ناقابل تردید ثبوت مل گئے۔ دوسروں سے بڑھ کر شہزاد اکیر مشیر احتساب پھولے نہیں سماتے تھے۔ انہوں نے تو چیلنج بھی کر دیاکہ ہمت ہے تو مرر پر کیس کر کے دکھائو۔ مرر کے خصوصی نمائندے نے رپورٹ چھاپنے سے پہلے پاکستان میں وزیر اعظم سے ملاقات کر کے دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال بھی کیا تھا۔ شہباز شریف نے کیس کر دیا اور لندن کی عدالت نے اب ابتدائی فیصلہ سنا دیا ہے کہ الزامات شہباز کی ہتک عزت کے مترادف تھے۔ ابھی دوسری سماعت ہوئی ہے۔ ابتدائی سماعت میں مرر کے نمائندوں نے کہا کہ ہم نے جو الزامات گائے وہ “مفروضوں ” پر بنیاد رکھتے تھے۔ واللہ مزا آیا۔ شریف خاندان سے مفروضے کی بلا کس بری طرح چمٹی ہے۔ باقی جو ہے سو ہے اور جو ہو گا سو ہو گا، مفروضے کی مار کا اندازہ لگائیے اور مزہ کیجیے۔