اس ہفتے تقریباً 24گھنٹوں میں بجلی ریکارڈ مہنگی کی گئی۔ پہلی بار یہ اعلان ہوا کہ نیپرا نے فیول ایڈجسٹمنٹ والی مد میں بجلی ایک روپے 53پیسے فی یونٹ مہنگی کر دی ہے۔ فیول ایڈجسٹمنٹ کا نام پچھلی حکومتوں میں کبھی کبھار سننے میں آتا تھا لیکن تبدیلی آنے کے بعد سے یہ نام لوگوں کو حفظ ہو گیا ہے کہ ہر مہینے ہوتا ہے۔ دوسری مد میں اضافے والی الگ ہیں۔ 24گھنٹے گزرنے سے پہلے نیپرا کا ایک اور اعلان آیا کہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے طور پر بجلی مزید 83پیسے مہنگی ہو گی۔ یہ کوئی نئی مد ہے۔ تبدیلی کی پٹاری ایسی ہی مدوں سے بھری پڑی ہے۔ بہرحال ایک ہی روز میں بجلی اڑھائی روپے(لگ بھگ) فی یونٹ مہنگی کر دی گئی اور کہیں کوئی “ککھ” بھی نہیں ہلا۔ حیرت کی بات البتہ یہ ہے کہ اس بار حکومت نے یہ وضاحتی اعلان نہیں کیا کہ بجلی کی قیمت میں اضافے کی ذمہ دار نواز حکومت ہے۔ کوئی بات نہیں، بندے بشر ہیں، بھول گئے ہوں گے۔ اگلی بار یہ اعلان ضرور کر دیں گے اور اگلی بار کون سی دور ہے۔ دو ہی ہفتوں بعد یکم تاریخ ہے۔ بجلی اور گیس اس تاریخ کو بھی تو مہنگی ہونی ہیں۔ اس مد میں نہ سہی، اس مد میں سہی اور ہاں، بجلی کے ساتھ اسی روز گیس بھی لگ بھگ 14روپے فی یونٹ مہنگی کر دی گئی اور اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ گیس کے میٹرز کے کرائے بھی سوفیصد بڑھانے کا اعلان ہو گیا۔ یہ اعلان اوگرا نے کیا اور نیپرا کی طرح اوگرا بھی یہ بتانا بھول گیا کہ اس اضافے بلکہ ان اضافوں کی ذمہ دار بھی ماضی کی حکومت ہے۔ ماضی کے حکمران جنہوں نے 80یا 90کی دہائی میں چوری کی رقم سے سات کروڑ روپے کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹ لندن میں خریدے تھے اور سات کروڑ روپے کی اس خریداری نے تین عشروں بعد ملک تباہ کر کے رکھ دیا۔
٭بجلی، گیس اور دیگر ضروریات کی قیمتوں میں ہونے والے سونامی نما اضافے کا حل اسلام آباد میں ایک وفاقی وزیر صاحب نے کیا خوب بتایا۔ احتجاج کرنے والے سرکاری ملازموں کو انہوں نے برسر عام مشورہ دیا کہ وہ اخراجات کم کریں۔ انہوں نے وزیراعظم ہائوس کے اخراجات میں کمی کا ذکر بھی کیا۔ غالباً ان کا اشارہ ان مہنگی بھینسوں کی طرف تھا جو تبدیلی سرکار نے آٰتے ہی بیچ دی تھیں اور ان کی جگہ چند درجن سستی (لگژری) گاڑیاں خرید لی تھیں۔ اتنا مدبرانہ مشورہ تبدیلی سرکارجیسا مدبر دے سکتا تھا، انہوں نے تو فرانس کی ملکہ میری کو بھی مات دے دی۔ ان کے اس مدبرانہ مشورے پر سرکاری ملازموں نے داد تو خوب دی لیکن دل ہی دل میں کہ ع
سخن کا مزا بے زبانی سے پوچھ(بلکہ بے زبانوں سے پوچھ)
٭سرکاری ملازموں کا احتجاج بھی خوب رہا۔ اسلام آباد کی تاریخ میں کسی مظاہرے پر ایسی شیلنگ نہیں ہوئی جیسی اس مظاہرے پر ہوئی۔ آنسو گیس کا دھواں بادلوں کی صورت اختیار کر کے فضا پر معلق ہو گیا۔ جہاز سے کوئی دیکھتا تو یہی سمجھتا کہ ہر طرف سے لکہ ہائے ابر نے دارلحکومت کا رخ کر لیا۔ شیخ رشید نے اشاروں کنایوں میں کئی بار بتلا دیا تھا کہ مزا چکھا دیں گے اور پھر چکھا بھی دیا یعنی جو بتلایا تھا، کر کے دکھا دیا۔ شیلنگ کے شیلنہ جانے کہاں سے منگوائے گئے تھے اور زائد از معیار تھے۔ ان کے زہریلے دھوئیں سے جانیں جا سکتی تھیں۔ معجزہ یہ ہوا کہ مظاہرین مرے نہیں۔ ادھو موئے ضرور ہو گئے۔ ایک بے چارہ پولیس کا جوان اس زہر کی تاب نہ لا سکا اور چل بسا۔ شیخ صاحب گریڈ 19سے اوپر کے ملازموں کو رعایت دینے کے سختی سے مخالف تھے لیکن وہ تو دینا ہی پڑی۔ سرکاری ملازم پہلے نہیں ہیں جو تبدیلی حکومت کی اس عنایت بے پایاں کا شکار ہوگے۔ اس سے پہلے سال فاٹا کے استاد، ینگ ڈاکٹرز، لیڈی ہیلتھ ورکرز، کسان اور اساتذہ الگ الگ مظاہروں کے موقع پر اپنے اپنے حصے کا مزا چکھ چکے ہیں۔ سرکاری ملازم البتہ سب پر بازی لے گئے، ان کے حصے کی دھواں دھاری اور وہ بھی اتنی زہریلی تو سال بھر کا کوٹہ تھی۔ آخر کیوں نہ ہو۔ وزیر اعظم بار بار کہہ چکے ہیں کہ ان کا دل غریبوں کے لئے دھڑکتا ہے۔ یہ دہکتے ہوئے شیل دراصل دھڑکتے ہوئے دل ہی تو ہیں۔
٭وزیر اعظم کا یہ انکشاف درست ثابت ہوا کہ سینٹ الیکشن پیسے کا کھیل ہیں۔ ایسی ویڈیوز سامنے آ گئیں جن میں ارکان اسمبلی کو کروڑوں روپے بطور رشوت لیتے ہوئے دیکھا گیا۔ نکتے والی بات صرف اتنی ہے کہ یہ کھیل صرف ایک صوبے میں کھیلا گیا۔ باقی تین صوبوں میں سے ایسی کوئی ویڈیو سامنے آئی نہ کوئی کہانی باہر نکلی اور اس سے بھی بڑے نکتے کی بات یہ ہے کہ رشوت دینے والوں اور رشوت لینے والوں دونوں کا تعلق ایک ہی پارٹی سے ہے۔ وہی پارٹی جس کا ہر رکن ایماندار اور دیانتدار ہے۔ بتانے والوں نے بتا دیا کہ ڈیل دھان پان وزیر کے ایما پر ہوئی۔ دوسرے لفظوں میں یہ صادق امین لوگوں کا اندرونی معاملہ ہے، اس پر ان لوگوں کو تبصرہ کرنے کا کوئی حق نہیں جو گنتی میں 21کروڑ ہیں۔
٭وصول کرنے والوں میں سے ایک صاحب وہ تھے جن کو خاں صاحب نے صوبے کا وزیر قانون بنایا۔ وزیر اعظم نے 2018ء کے اپریل میں بتایا تھا کہ انہوں نے نوٹ دینے پکڑنے اور گننے کی ویڈیوز دیکھی ہیں۔ اب انہوں نے فرمایا کہ انہوں نے ویڈیوز نہیں دیکھی تھی۔ ریاضی کا سوال ہے کہ دونوں میں سے کون سا بیان درست ہے۔ الجبرا کا جواب یہ ہے کہ دونوں بیان سچے ہیں۔ وزیر اعظم دنیا کے واحد سیاستدان ہیں جنہوں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ صرف سچ بولیں گے، سچ کے سوا کچھ نہیں بولیں گے چنانچہ وہ بائیس سال سے سچ پر سچ بول رہے ہیں اور عرصہ اڑھائی سال سے ان کے کسی سانچے پر آنچ تک نہیں آئی۔