سینیٹ کا الیکشن کل اور پلاسی کی جنگ 23 جون 1757ءکو ہوئی اور دونوں نے تاریخ پر اپناگہرا نقش چھوڑا، بنگال ہندوستان کی سب سے بڑی اور امیر ریاست تھی، پورا جنوبی ہندوستان نواب آف بنگال کی کمان میں تھا، سراج الدولہ بنگال کا حکمران تھا، دوسری طرف لارڈ رابرٹ کلائیو کمپنی سرکار کی فوج کا کمانڈر تھا، انگریز کے لیے لندن سے ہندوستانی فوج کے ساتھ، ہندوستانی میدانوں میں، ہندوستانی نواب کے ساتھ لڑنا آسان نہیں تھا لیکن جب اندر غدار موجود ہوں تو پھر فوجیں اور سلطنتیں کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہوں شکست بہرحال ریاستوں کا مقدر بن جاتی ہے اور بنگال اور سراج الدولہ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔
لارڈ کلائیو نے سراج الدولہ کے وزیراعظم میرجعفر کو اپنے ساتھ ملا لیا، میر جعفر کو سراج الدولہ کی جگہ نواب بنانے کا لالچ دیا گیا اور یوں سراج الدولہ18 ہزار سواروں، 50 ہزار پیادوں اور 50 توپوں کے باوجود بھاگیرتی ندی کے کنارے شکست کھا گیا، یہ مرشد آباد کی طرف بھاگا لیکن میر جعفر کے بیٹے میرن نے اسے راستے میں انتہائی سفاکی کے ساتھ شہید کر دیا، بنگال فتح ہو گیا، میرجعفر کو وعدے کے مطابق نواب بنا دیا گیا لیکن یہ صرف کاغذی نواب تھا، بنگال کے تمام اختیارات انگریزوں کے ہاتھ میں تھے۔
نواب کا صرف ایک کام تھا، یہ رعایا سے ٹیکس جمع کرے اور انگریز سرکار کے حوالے کر دے، میر جعفر یہ ذمہ داری نبھاتا رہا لیکن آخر کب تک؟ خزانہ خالی ہو گیا اور ریاست میں قحط پڑنے لگا، میر جعفر نے انگریزوں کے چنگل سے نکلنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا چناں چہ انگریز نے چار سال بعد میر جعفر کو معزول کر دیا اور اس کے داماد میر قاسم کو تخت پر بٹھا دیا، وہ حالات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا رہا، وہ ناکام ہو گیا تو میرجعفر کو دوبارہ موقع دے دیا گیا۔
وہ اس وقت تک مایوس اور بیمار ہو چکا تھا، لوگ اس سے نفرت بھی کرتے تھے چناں چہ وہ 1765ءمیں فوت ہو گیا اور یوں بنگال کا قصہ ختم ہو گیا لیکن یہ حقیقت پیچھے رہ گئی محب وطن اور غدار دونوں کو بہرحال ایک ہی مٹی میں دفن ہونا پڑتا ہے اور یہ حقیقت دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ میں نے برسوں پہلے کسی جگہ پڑھا تھا شطرنج کا بادشاہ اور غلام دونوں بازی ختم ہونے کے بعد ایک ہی ڈبے میں جاگرتے ہیں۔
شطرنج کا تختہ بھی فولڈ کر کے مہروں کے ڈبے کے ساتھ رکھ دیا جاتا ہے، یہ بھی زندگی کی تلخ حقیقت ہے مگر بازی کے دوران کوئی مہرہ اس حقیقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا، یہ ہر بار خود کو اہم ترین سمجھنے لگتا ہے، یہ قلعوں، گھوڑوں اور پیادوں سے لڑتا رہتا ہے لیکن آخر میں نتیجہ وہی نکلتا ہے یہ ایک بار پھر اپنے دشمن کے ساتھ ڈبے میں بند کر دیا جاتا ہے اور کھیل کا تختہ بھی تہہ کر کے اس کے ساتھ رکھ دیا جاتا ہے، یہ سلسلہ ہزاروں برس سے جاری ہے اورشاید ہزاروں سال تک جاری رہے گا لیکن بنگال کا میر جعفر ہو یا پاکستانی جمہوریت کے میر جعفر کوئی اس حقیقت کو ماننے کے لیے تیارنہیں ہوتا۔
مجھے آئندہ برس ماشاءاللہ صحافت میں 30 برس ہو جائیں گے، میں اب تک 9 حکومتیں دیکھ چکا ہوں، ان تمام حکومتوں کی بساطیں میرے سامنے بچھائی گئیں، مہرے بھی میرے سامنے سجائے گئے اور کھیل بھی میری آنکھوں کے سامنے شروع ہوا اور مہرے بھی میرے سامنے لڑتے، پٹتے اور مرتے رہے اور ہر بار آخر میں جیتنے اور ہارنے والے دونوں کو میری آنکھوں کے سامنے ڈبے میں بند کر کے بساط کو لپیٹ دیا گیا اور چند دن بعد پھر دوبارہ بساط بچھادی گئی۔
مہرے پھر سیدھے کر کے اپنی اپنی پوزیشن پر رکھے گئے، کھیل نئے سرے سے شروع ہو گیااور پھر وہی مار دھاڑ، پھر وہی توپ بازیاں، پھر وہی پریس کانفرنسیں، پھر وہی الزامات کے لشکر اور پھر کھوپڑیوں کے وہی مینار، ہر چیز ہر بار ویسی ہی تھی اور آخر میں نتیجہ بھی ویسا ہی نکلا، کھیل ختم، بساط سمٹی اور مہرے ایک بار پھر ڈبے میں، بات ختم، اس بار بھی وہی ہو رہا ہے، ہمارے گرد پلاسی کی جنگ چل رہی ہے، سراج الدولہ اور میرجعفر ایک دوسرے کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ دونوں فریقین جانتے ہیں اس جنگ کا جو بھی نتیجہ نکلے گا فائدہ بہرحال لارڈ کلائیو کو ہو گا، سراج الدولہ جیت گیا تو وہ اتنا کم زور ہو چکا ہو گا کہ اس کے پاس لارڈ کلائیو کے ساتھ بیٹھنے اور نیا سمجھوتہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔
اور اگر میر جعفر جیت گیااور اس نے سراج الدولہ کو مار دیا تو بھی جیت بالآخر لارڈ کلائیو کی ہی ہو گی، کیوں؟ کیوں کہ میرجعفر کا اقتدار بہرحال عارضی ثابت ہو گا یہ ٹیکس جمع کر کر کے اور تاوان جنگ ادا کر کر کے ہلکان ہو جائے گا اور یوں ایک دن سراج الدولہ کے ساتھ ایک ہی ڈبے میں بند ہو جائے گا اور یہ ڈبہ بند بساط کے ساتھ رکھ دیا جائے گا تاہم اس دوران اداروں کا مزید جنازہ نکل جائے گا، قلعے کی مزید اینٹیں گر جائیں گی، یہ کھیل دیکھ دیکھ کر میری عمر کے میڈیا ورکرز سمجھ دار ہو گئے ہیں، یہ حقیقت کو جان گئے آخر میں دونوں ایک ہی ڈبے میں جائیں گے مگر مہرے آج بھی نا سمجھ ہیں، یہ آج بھی ایک دوسرے سے دست وگریبان ہیں اور اس جنگ کو حقیقی سمجھ رہے ہیں، افسوس ہے ان پر!۔
ملک میں سیاست کا جنازہ پہلے ہی نکل چکا تھا لیکن سینیٹ کے الیکشن نے سیاست کی قبر بھی کھود دی اور یوں سیاست کی آخری سانس بھی بجھ گئی، ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن عمران خان ذوالفقار علی بھٹو بن چکے ہیں، بھٹو صاحب نے بھی معیشت کا جنازہ نکال دیا تھا اور انہوں نے بھی سیاسی مخالفوں کے ساتھ وہی سلوک کیا تھا جو اس وقت حکومت اپوزیشن کے ساتھ کر رہی ہے بس لاہور کا قلعہ اور دلائی کیمپ جیسے عقوبت خانے باقی ہیں، حکومت کا اگر بس چلے تو یہ دلائی کیمپ بھی کھول دے اور ملک میں پانچ ہزار سروں کا قلعہ بھی تعمیر کر دے لیکن شاید وقت اور بین الاقوامی میڈیا اجازت نہیں دے رہا۔
آپ دو ماہ کی سیاست کھول کر دیکھ لیں، فردوس عاشق اعوان نے وزیراعظم کو اطلاع دی پنجاب کے تیس چالیس ایم پی ایز سینیٹ کے الیکشن میں پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ نہیں دیں گے، حکومت گھبرا گئی اور اس نے “اوپن بیلٹ” کے لیے زور لگانا شروع کر دیا، پہلے تین فروری کو قومی اسمبلی سے بل پاس کرانے کی کوشش کی، اپوزیشن نے شدید مزاحمت کی تو صدارتی آرڈیننس داغ دیا گیا، صدر عارف علوی سپریم کورٹ میں ریفرنس پہلے ہی دائر کرچکے تھے اور پھر یوں ایک نیا تماشا شروع ہو گیا۔
سماعت کے دوران یہ تاثر ابھرنے لگا سپریم کورٹ اوپن بیلٹ کا کوئی راستہ نکالنا چاہتی ہے لیکن الیکشن کمیشن ڈٹ گیا، چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ پرانے بیوروکریٹ ہیں، ان کے بارے میں مشہور ہے یہ اگر قائل ہو جائیں تو یہ پورا اونٹ بھی کھا سکتے ہیں مگر آپ انہیں زبردستی چنے کا ایک دانا بھی نہیں کھلا سکتے، حکومت، اٹارنی جنرل اور وکلاءان پر جتنا دباؤ ڈالتے رہے یہ اتنا ہی ڈٹتے چلے گئے اور اس طرح عدالت دلدل میں دھنستی چلی گئی۔
بہرحال یکم مارچ کو فیصلہ آیا اور حکومت کو ہزیمت اٹھانا پڑ گئی لیکن میں حکومت کے صدقے جاؤں اس نے اس ہار کو بھی اپنی فتح ڈکلیئر کر دیا، آپ کمال دیکھیے، عدالت نے صدر کا ریفرنس اور آرڈیننس دونوں پیک کر دیے، یہ بھی ڈکلیئر کر دیا آئین کے آرٹیکل 226 میں ترمیم کے بغیر اوپن بیلٹ نہیں ہو سکتا اور یہ بھی بتا دیا گیا الیکشن کی تمام تر ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے لیکن حکومت نے اپنی شکست پر تالیاں بھی بجانا شروع کر دیں اور الیکشن کمیشن پر “بار کوڈ” اور ریڈ ایبل بیلٹ پیپر کے لیے دباؤ بھی ڈالنا شروع کر دیا۔
دوسری طرف یوسف رضا گیلانی کے ہونہار صاحب زادے علی حیدر گیلانی کی ویڈیو بھی سامنے آ گئی، یہ چار ایم این ایز کو ووٹ خراب کرنے کا طریقہ بتا رہے تھے، ان میں سے تین ایم این ایز کراچی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور ویڈیو ان میں سے ایک نے بنائی تھی، وہ کیمرہ آن کر کے موبائل جیب میں رکھ کر چلا گیا تھا اور ساری کارروائی ریکارڈ کر لی، سندھ کے وزیراطلاعات و بلدیات ناصر حسین شاہ کی آڈیو بھی سامنے آ گئی، ناصر حسین شاہ اس آڈیو کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں لیکن چھوٹا سا فرانزک ٹیسٹ حقیقت کو حقیقت ثابت کرنے کے لیے کافی ہو گا۔
دو مارچ کو سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے تین گم شدہ ایم پی ایز بھی آ گئے، یہ پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس تھے اور یہ ضمیر کے مطابق ووٹ دینے کے لیے مناسب جگہ تلاش کر رہے تھے، پی ٹی آئی کے ایم پی ایز نے اسمبلی کے فلور پر اپنے ساتھیوں کی دھلائی کر دی، ایوان میں جو نعرے لگائے گئے وہ بھی انتہائی خوف ناک اور ناقابل برداشت تھے، سینیٹ کے اس الیکشن میں رقم کی لین دین کا الزام بھی لگا، لیاقت جتوئی نے دعویٰ کیا سیف اللہ ابڑو نے 35 کروڑ روپے میں ٹکٹ خریدا، یہ ٹھیکے دار ہیں لیکن ٹیکنوکریٹ کی سیٹ پر الیکشن لڑا۔
ہم اگر علی حیدر گیلانی کے بعد ناصر حسین شاہ کی آڈیو اور لیاقت جتوئی کے الزام کو درست مان لیں تو پھر سینیٹ کا الیکشن مکمل ننگا ہو کر سامنے آ چکا ہے چناں چہ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے اس پولرائزیشن اور ان دہکتے تندوروں کا آخری نتیجہ کیا نکلے گا؟ کیا یہ گیم ختم نہیں ہو رہی اور غلام اور بادشاہ ایک بار پھر دوبارہ ڈبے میں بند نہیں کر دیے جائیں گے؟ ہم واقعی تیزی سے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں، یہ تماشا اب زیادہ دنوں تک نہیں چل سکے گا، بادشاہ اور غلام دونوں کے ڈبے میں جانے کا وقت ہو چکا ہے بس آخری موو باقی ہے اور کھیل ختم۔