پی ڈی ایم (مرحوم)

0
281
javed chaudhry urdu columns

کیپٹن شاہین پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر ہیں، یہ لاہوریے ہیں، جوانی میں امریکا گئے، بزنس کیا اور خوش حال ہو گئے، شریف فیملی سے ان کے پرانے تعلقات ہیں، میاں نواز شریف نے انھیں 2018میں سینیٹ کا ٹکٹ دیا اور یہ پاکستان کے ایوان بالا کے رکن بن گئے، چیئرمین سینیٹ کے الیکشن سے پہلے یہ اپنے پرانے “کورس میٹس” سے رابطے میں تھے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے جاسوسی نیٹ ورک نے یہ اطلاع آصف علی زرداری کو دے دی، کیپٹن شاہین سے پوچھا گیا تو یہ مان گئے ان پر ان کے کورس میٹس کا پریشر ہے چناں چہ میاں نواز شریف انوالو ہوئے اور کیپٹن شاہین بڑی مشکل سے ووٹ ڈالنے کے لیے راضی ہوئے لیکن پیپلز پارٹی کا خیال ہے یوسف رضاگیلانی کے مسترد ہونے والے ووٹوں میں کیپٹن شاہین کا ووٹ بھی شامل تھا، یہ الزام کس حد تک درست ہے یہ صرف اللہ جانتا ہے مگر جہاں تک پاکستان پیپلز پارٹی کی شک کی فہرست کا تعلق ہے، اس میں بہرحال کیپٹن شاہین کا نام شامل ہے۔

پی ڈی ایم کی شک کی فہرست میں ٹوٹل دس لوگ شامل ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی کے تین، ن لیگ کے پانچ اور اے این پی کے ایک سینیٹر کا نام شامل ہے، پیپلز پارٹی کا خیال ہے ان لوگوں نے جان بوجھ کر ووٹ خراب کر دیے تھے یا صادق سنجرانی کو ووٹ دے دیا۔

پاکستان مسلم لیگ ن کی شک کی فہرست میں کیپٹن شاہین کے ساتھ مشاہد حسین سید، سینیٹر دلاور خان، رانا مقبول اور اسد جونیجو کے نام شامل ہیں، مشاہد حسین سید کی ذمے داری میاں نواز شریف نے اٹھائی تھی، سینیٹر دلاور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے دوست ہیں اور یہ ان کے ساتھ مل کر ووٹ بھی مانگتے رہے، آخری دنوں میں انھیں منانے کی ذمے داری آصف علی زرداری کو سونپ دی گئی اور زرداری صاحب نے یہ ذمے داری “پوری “کرلی، مجھے ن لیگ کے ایک سینئر قائد نے بتایا، سینیٹر دلاور نے الیکشن سے ایک رات قبل شاہد خاقان عباسی کو حلف دے دیا تھا میں صبح یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دوں گا۔

سینیٹر دلاور نے اپنے حلف کی پاس داری کی لیکن شاید ان کا ووٹ بھی ضایع ہو گیا، رانا مقبول یوسف رضا گیلانی کو ووٹ نہیں دینا چاہتے تھے، یہ آخری دنوں میں کسی کے رابطے میں نہیں آ رہے تھے، میاں نواز شریف نے انھیں تلاش کیا اور یہ ان کے کہنے پر 12 مارچ کو ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے ایوان پہنچے، اسد جونیجو بھی شک کی فہرست میں شامل ہیں، یہ بھی اپنے “ضمیر کے مطابق” ووٹ دینا چاہتے تھے، یہ خواجہ سعد رفیق کی سفارش پر سینیٹر بنے تھے چناں چہ انھیں منانے کی ذمے داری سعد رفیق کو دی گئی۔

آصف علی زرداری نے بھی ان کی مدد کی اور یوں یہ بھی راضی ہو گئے لیکن کیا یوسف رضا گیلانی کو ان کے ووٹ کا کوئی فائدہ ہوا؟ یہ راز تاحال راز ہے تاہم مشکوک سینیٹرز قرآن مجید جیب میں ڈال کر حلف دینے کے لیے کبھی ایک اور کبھی دوسرے دروازے پر جا رہے ہیں۔ میں نے دو دن قبل پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک سینئر عہدیدار سے پوچھا “یوسف رضا گیلانی کے سات ووٹ مسترد ہو گئے، یہ بات سمجھ میں آتی ہے لیکن مولانا عبدالغفور حیدری کے معاملے میں کیا ہوا؟ ان کے باکس میں 44 اور مرزا محمد آفریدی کے صندوق سے 54ووٹ کیسے نکل گئے” اس نے قہقہہ لگا کر جواب دیا، مرزا محمد آفریدی ارب پتی ہیں، لاہور میں کاروبار کرتے ہیں، والد تبلیغی جماعت سے وابستہ ہیں۔

دونوں باپ بیٹا طویل عرصہ ایاز صادق کی خدمت کرتے رہے، مرزا محمد آفریدی ہر وقت اسپیکر کے چیمبر میں دکھائی دیتے تھے، یہ 2018 میں فاٹا سے آزاد الیکشن لڑ کر سینیٹ پہنچ گئے اور پھر ایاز صادق کے ذریعے میاں نواز شریف سے ملے اور ن لیگ جوائن کر لی، یہ اس الیکشن میں چھ سینیٹر حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئے تھے۔

پاکستان تحریک انصاف نے ان چھ سینیٹرز کی بنیاد پر انھیں ڈپٹی چیئرمین کا ٹکٹ دے دیا، یہ ہاتھ پاؤں مارتے رہے اور یہ آخر میں چھ سینیٹر کو دس میں تبدیل کرنے میں کام یاب ہو گئے اور یوں یہ 44 کے مقابلے میں 54ووٹ لے کر ڈپٹی چیئرمین منتخب ہو گئے، مولانا عبدالغفور حیدری مرزا محمد آفریدی کے مقابلے میں غریب امیدوار تھے اور یہ الیکشن ہار گئے، مولانا فضل الرحمن کو چاہیے تھا یہ آفریدی صاحب جیسے کسی “مضبوط” امیدوار کو میدان میں اتارتے، برابری کا مقابلہ ہوتا اور یوں شاید ڈپٹی چیئرمین کی سیٹ مولانا فضل الرحمن کو مل جاتی”۔

میں نے ان سے پوچھا “پاکستان پیپلز پارٹی یوسف رضا گیلانی کے مسترد ووٹوں کا کیس لے کر عدالت جا رہی ہے، اس کا کوئی فائدہ ہوگا؟ ” وہ ہنس کر بولے “فوری طور پر نہیں، یہ کیس چلتا رہے گا، دلائل دیے اور لیے جاتے رہیں گے اور یوں عمران خان کے فارن فنڈنگ کیس کی طرح صادق سنجرانی کے سر پر بھی تلوار لٹکتی رہے گی، یہ بھی اب ایک آنکھ کھول کر سویا کریں گے، اس دوران کسی وقت انھوں نے پھڑپھڑانے کی کوشش کی تو ان کے خلاف فیصلہ آ جائے گا، یوسف رضا گیلانی اب پاکستان پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بارگیننگ چِپ ہیں۔

یہ جس دن چیئرمین بن گئے وہ دوسرے این آر او کا پہلا دن ہو گا” میں بھی ہنس پڑا اور ہنستے ہنستے کہا “آپ کتنے سادہ تھے، آپ نے پیپلز پارٹی سے لانگ مارچ اور استعفوں کی امید لگا لی تھی، آپ یہ بھول گئے پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کا کیس چل رہا ہے، پارٹی کی آدھی قیادت ضمانتوں پر ہے، یہ کیس پیپلز پارٹی کی مجبوری ہیں، ان کی دوسری مجبوری سندھ حکومت ہے، یہ کسی قیمت پر سندھ حکومت قربان نہیں کرے گی، یہ لوگ جانتے ہیں ہماری قربانی کا فائدہ میاں نواز شریف اٹھائیں گے، آپ خود سوچیں یہ نواز شریف کو کیوں فائدہ پہنچائیں گے؟ میاں نواز شریف ملک سے باہر ہیں، ان کا پاسپورٹ ختم ہو چکا ہے اور یہ اب برطانیہ کے رحم و کرم پر ہیں۔

یہ جانتے ہیں یہ جس دن واپس آئیں گے یہ سیدھے جیل جائیں گے، میاں شہباز شریف چھ ماہ سے جیل میں ہیں، حمزہ شہباز 20ماہ قید کاٹ کر گھر پہنچے ہیں، حکومت مریم نواز کو بھی گرفتار کرنا چاہتی ہے لیکن اس کا بس نہیں چل رہا، کیوں نہیں چل رہا؟ یہ حقیقت پوری دنیا جانتی ہے تاہم مولانا فضل الرحمن گھر بیٹھے ہیں، حکومت ان کے مدارس اور بچوں سے گھبراتی ہے، یہ انھیں چھیڑ نہیں رہی، دوسری طرف حکومت بھی بری طرح پھنسی ہوئی ہے، فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ آ گیا یا ایک آدھ اتحادی نکل گیا تو حکومت چلی جائے گی اور عمران خان نے اگر پنجاب میں عثمان بزدار کو نہ ہٹایا تو بھی یہ حکومت نہیں بچ سکے گی لہٰذا آپ گیم دیکھیں، کھیل کے سارے کھلاڑی پھنسے ہوئے ہیں، ان میں سے کوئی آزادی کے ساتھ اُڑ نہیں سکتا، ملک اس ساری گیم کا وکٹم ہے۔

یہ روز بروز نقصان اٹھا رہا ہے، کھلاڑی کھیل رہے ہیں اور ملک تباہ ہو رہا ہے، کاش کوئی ملک کے بارے میں بھی سوچ لے” وہ غور سے میری بات سنتے رہے اور آخر میں لمبی آہ بھر کر بولے “بے شک ہم سب نے مل کر ملک کا جنازہ نکال دیا، کاش ہم میں کوئی ایک فریق عقل کر لے، یہ ملک کے بارے میں سوچ لے” وہ رکے اور لمبا سانس لے کر بولے “ہمیں اب مان لینا چاہیے پی ڈی ایم ختم ہو چکی ہے، یہ فیصلہ عملاً اتوار 14 مارچ کو آصف علی زرداری، میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کے ٹیلی فونک رابطے میں ہی ہو گیا تھا، مولانا اور نواز شریف دونوں اسمبلیوں سے استعفے دینا چاہتے تھے لیکن آصف علی زرداری نے صاف انکار کر دیا تھا، ان کا کہنا تھا ہمیں بے نظیر بھٹو بتا کر گئی تھیں ایوان کے اندر رہو، کبھی پارلیمنٹ کے باہر نکل کر سیاست نہ کرنا لہٰذا ہم اندر بیٹھ کر لڑیں گے۔

مولانا نے اس گفتگو کے بعد آبزرویشن دی، ہمیں پھر لانگ مارچ کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا، ہم آئیں گے، خوار ہوں گے، ناکام واپس چلے جائیں گے اور ہمارے جانے کے بعد حکومت مزید مضبوط ہو جائے گی لیکن میاں نواز شریف کی تجویز تھی ہمیں 26 مارچ کو لانگ مارچ ہر صورت کرنا چاہیے، ان کی تجویز تھی یہ لانگ مارچ خواہ ایک دن کا ہو مگر یہ اسلام آباد کی بجائے راولپنڈی میں ہونا چاہیے، آصف علی زرداری نے اس سے بھی انکار کر دیا”۔

میں نے ان سے پوچھا”آپ لوگ پھر 16 مارچ کو کیوں اکٹھے ہوئے تھے” وہ ہنس کر بولے “پی ڈی ایم 14 مارچ اتوار کو انتقال کر چکی تھی بس اس کی نماز جنازہ 16 مارچ کو ہوئی، آصف علی زرداری نے خوف ناک تقریر کی اور یہ تقریر میڈیا کو بھی ریلیز کر دی، ہمیں بھی مجبوراً مریم نواز کا جواب ریلیز کرنا پڑ گیا اور یوں اپوزیشن کا کھیل ختم ہو گیا”۔

میں نے پوچھا “مولانا کا ردعمل کیا تھا” وہ دکھی ہو کر بولے “مولانا بہت اداس اور پریشان تھے اور یہ لانگ مارچ کے خاتمے کے اعلان کے لیے بھی راضی نہیں تھے، ہم بڑی مشکل سے انھیں میڈیا کے سامنے لے کر آئے” میں نے ان سے آخری سوال پوچھا”کیا آپ سمجھتے ہیں آصف علی زرداری کا مطالبہ غلط ہے” وہ دائیں بائیں دیکھ کر بولے “زرداری صاحب غلط نہیں کہہ رہے اگر میاں نواز شریف واپس نہیں آتے تو پھر ہماری پارٹی بھی پی ڈی ایم کی طرح ختم ہو جائے گی چناں چہ میاں صاحب کو واپس آنا ہو گا ورنہ اس بار ان کا بھائی بھی ان کا ساتھ نہیں دے گا”۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here