“اسد عمر شان دار انسان ہیں، یہ معیشت کو بھی سمجھتے ہیں، کارپوریٹ دنیا سے بھی آئے ہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں اور ان میں عاجزی اور انکساری بھی ہے لیکن خان صاحب کا خیال ہے ہمیں زیادہ تجربہ کار وزیر خزانہ چاہیے، اسد عمر آئی ایم ایف سے ڈیل نہیں کر پا رہے، یہ تاجروں، صنعت کاروں اور بیوپاریوں کے ایشوز کو بھی نہیں سمجھ پا رہے اور شیئر مارکیٹ بھی ان کے قابو نہیں آ رہی چناں چہ وزیراعظم نے ان کو ہٹا کر حفیظ شیخ کو لگا دیا، یہ تجربہ کار بھی ہیں، آئی ایم ایف کو بھی سمجھتے ہیں اور یہ بزنس کمیونٹی اور صنعت کاروں کے ساتھ بھی کام کر چکے ہیں لہٰذا یہ معیشت کو ٹریک پر لے آئیں گے”۔
مجھے یہ دلائل20اپریل 2019ءکو اس وقت دیے گئے جب وزیراعظم نے اچانک اسد عمر سے وزارت خزانہ کا قلم دان لے کر حفیظ شیخ کے حوالے کر دیا تھا، پوری پی ٹی آئی کا اس وقت خیال تھا اسد عمر بہت اچھے ہیں لیکن یہ ناتجربہ کاری کی وجہ سے مار کھا رہے ہیں، مجھے آج بھی یاد ہے وزیراعظم وزیر خزانہ کو بدلنے سے ایک دن پہلے تک اسد عمر کی تعریفیں کر رہے تھے، یہ میٹنگز اور تقریبات میں انہیں اپنے ساتھ بٹھاتے تھے اور زور دار آواز میں اسد ویل ڈن کہتے تھے لیکن پھر اسد عمر کو ہٹانے کے اچانک فیصلے نے پوری پارٹی کو حیران کر دیا، بہرحال حفیظ شیخ آئے تو پوری پارٹی ان کا ڈھول بن گئی اور یہ ڈھول ایک سال اور11ماہ مسلسل بجتا رہا، وزیراعظم عمران خان سمیت پوری پارٹی حفیظ شیخ کو اکانومی کا آئن سٹائن ثابت کرنے میں جتی رہی، یہ خزانہ کے مشیر تھے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے 7 دسمبر2020ءکو ان کے تقررکو غیر قانونی قرار دے دیا تو حکومت نے ہٹانے کی بجائے حفیظ شیخ کو پورا وفاقی وزیر بنا دیا اور پھر انہیں سینیٹ میں کام یاب کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور بھی لگا دیا، پارٹی کے 35 ایم این ایز نے حفیظ شیخ کے خلاف ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا، وزیراعظم بازو اڑس کر ان کے خلاف میدان میں آ گئے۔
ان ایم این ایز کو جس طرح راضی کیا گیا، ناراض ارکان کو جس طرح پچاس پچاس کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز دینے کے وعدے کیے گئے اور جس طرح کراچی کے چار ایم این ایز کے ذریعے یوسف رضا گیلانی کے صاحب زادے علی حیدر گیلانی کے خلاف سٹنگ آپریشن کیا گیا اور پھر یہ فوٹیج ریلیز کی گئی اور جس طرح سپریم کورٹ کے ذریعے اوپن بیلٹ کی کوشش بھی کی گئی اور جس طرح الیکشن کمشنر پر دباؤ ڈالا گیا یہ اب تاریخ بن چکی ہے لیکن حفیظ شیخ اس کے باوجود ہار گئے۔
یہ کیوں نہیں جیت سکے یہ راز بھی اب راز نہیں رہا، حفیظ شیخ کو جنہوں نے ووٹ لے کر دینے تھے وہ آخری رات تک ایکٹو نہیں ہوئے، وہ اپنے منہ سے بولتے رہے “الیکشن میں کوئی مداخلت نہیں ہو گی” اور یہ دعویٰ سچ ثابت ہوا اور یوں حفیظ شیخ ہار گئے اور اس کے بعد وزیراعظم اعتماد کا ووٹ لینے پر مجبور ہو گئے، آپ اگر فروری اور مارچ کے دوران حکومت پر دباؤ کا جائزہ لیں تو آپ کو اس کے پیچھے صرف اور صرف ایک چہرہ نظر آئے گا اور وہ ہے حفیظ شیخ، وزیراعظم نے انہیں سینیٹر بنانے اور وزیر خزانہ رکھنے کے لیے اپنا آپ اور اپنی حکومت دونوں کو داؤ پر لگا دیا تھا۔
وزیراعظم اس حد تک اپنے وزیر خزانہ کے پیچھے کھڑے تھے کہ چار مارچ کو الیکشن ہارنے کے باوجود یہ فرمایا گیا حفیظ شیخ اپنا کام جاری رکھیں گے، یہ بدستور ہمارے وزیر خزانہ رہیں گے لیکن پھر اچانک 28 مارچ کو حفیظ شیخ کو فارغ کر دیا گیا، کیوں؟ یہ کیوں اس وقت مہنگاترین کیوں ہے؟ میں نے اس خبر کے بعد دوبارہ ان صاحب سے رابطہ کیا جنہوں نے مجھے اسد عمر کے بعد کہا تھا، وزیراعظم کا خیال ہے “ہمیں کوئی تجربہ کار وزیر خزانہ چاہیے” میں نے ان سے پوچھا “کیا آپ اب تجربہ کار شخص سے بھی اکتا گئے ہیں “۔
وہ ہنس کر بولے “وزیراعظم کا خیال ہے ہمیں معیشت میں پی ٹی آئی کا فیس چاہیے” میں نے بھی ہنس کر کہا “اور کیا اسد عمر پی ٹی آئی کا فیس نہیں تھے” ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، میں نے پوچھا “آپ کے فیصلے آخر کرتا کون ہے؟ آپ بیٹھے بیٹھے 180 کے زاویے پر مڑ جاتے ہیں اور ساتھ ہی پوری پارٹی واہ واہ شروع کر دیتی ہے، آپ کو ہوش کب آئے گا” وہ ہنس کر بولے “حفیظ شیخ کا سب سے بڑا فیلیئر مہنگائی تھا، یہ مہنگائی کنٹرول نہیں کر سکے اور دوسرا حکومت کا ہر فیصلہ خان صاحب کرتے ہیں “۔
میں نے عرض کیا “کیا تین مارچ کو ملک میں مہنگائی نہیں تھی؟ اگر تھی تو پھر آپ حفیظ شیخ کو الیکٹ کرانے کے لیے اتنا زور کیوں لگا رہے تھے، آپ 27 مارچ تک حفیظ شیخ کی کارکردگی کو بھی سراہ رہے تھے، کیا آپ کو 28 مارچ کو پتا چلا ملک میں مہنگائی بھی ہے اور ہمارے وزیر خزانہ نے معیشت کا جنازہ بھی نکال دیا، دوسرا اگر یہ فیصلے وزیراعظم خود کر رہے ہیں تو پھر پوری قوم کو سیٹ بیلٹ باندھ لینی چاہیے، کیوں؟ کیوں کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار بجٹ کی تیاری کے دوران وزیر خزانہ بدل دیا گیا ہے اور اس کی جگہ ایک ایسا شخص لگا دیا گیا ہے جس کا اکانومی کا کوئی تجربہ نہیں، جس نے آج تک بجٹ نہیں بنایا اور یہ قدم انتہائی خطرناک ہے، آپ اس کے نتائج کا اندازہ ہی نہیں کر سکتے”۔
وہ ہنسے اور بولے “آپ ہمارے خان صاحب کو نہیں جانتے، یہ اڑتے جہاز سے دونوں پائلٹ اتار سکتے ہیں اور جہاز اس کے باوجود اڑتا رہتا ہے” میں نے استغفار پڑھی اور فون بند کر دیا۔ میں حفیظ شیخ کا ناقد تھا اور ناقد ہوں، یہ آئی ایم ایف کے ملازم ہیں، یہ بریف کیس کے ساتھ پاکستان آتے ہیں اور بریف کیس لے کر واپس چلے جاتے ہیں، یہ اب بھی واپس جا رہے ہیں لہٰذا میں کبھی ان کے حق میں نہیں تھا لیکن انہیں جس طریقے سے ہٹایا گیا یہ ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
آپ حکومت کی بائی پولرحرکات ملاحظہ کیجیے، یہ مہینے کے شروع میں حفیظ شیخ کو سینیٹر بنانے کے لیے ٹل کا زور لگا دیتی ہے اور پھر اسی مہینے کے آخر میں انہیں اچانک ہٹا دیتی ہے اور یہ اس عمل میں بجٹ تک کو فراموش کر دیتی ہے، کیا یہ رویہ نارمل ہے؟ کیا ہم اسے عقل کی کسی کسوٹی پر جانچ سکتے ہیں؟ جی نہیں لہٰذا ہمیں اب یہ مان لینا چاہیے ہم نے نادانی میں ملک ایسے ہاتھوں میں دے دیا ہے جو بڑے بڑے نازک فیصلے اتنی آسانی سے کر گزرتے ہیں جس آسانی سے کوئی سگریٹ بھی نہیں بجھاتا چناں چہ ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن ہم اس فیز میں داخل ہو چکے ہیں جس میں ہمیں اب ڈر جانا چاہیے۔
آپ ملک میں گورننس کی حالت دیکھ لیجیے، ریاست 15 ماہ میں ملک میں کورونا ایس او پیز نافذ نہیں کرا سکی، پوری دنیا اپنے لوگوں کو دھڑادھڑ ویکسین لگا رہی ہے لیکن ہم نے اب تک ویکسین کی ایک خوراک بھی نہیں خریدی، ہمارے صدر اور وزیراعظم کو بھی امدادی ویکسین لگائی گئی ہے، پورے ملک میں کورونا پھیل رہا ہے، ہم “ریڈ لائین” بھی کراس کر چکے ہیں لیکن حکومت نے ابھی تک پرائیویٹ ویکسین کی قیمت طے نہیں کی، ہم یہ مان لیتے ہیں کورونا ایک نیا عذاب ہے اور دنیا میں ابھی تک صرف چھ ملک کورونا ویکسین بنا رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے پولیو، ملیریا اور انفلوئنزا تو پرانا ایشو ہے۔
ہم نے آج تک ان کی ویکسین کیوں نہیں بنائی؟ ہم آج بھی پولیو کے ڈراپس درآمد کر رہے ہیں، ہمارے ملک میں “او آر ایس” تک نہیں بن رہا جب کہ ہمارے مقابلے میں بھارت میں ایک ارب 39کروڑ لوگ رہتے ہیں، یہ غربت اور پولرائزیشن میں بھی ہم سے بہت آگے ہے لیکن یہ پوری دنیا کو 14 قسم کی ویکسین فراہم کر رہا ہے، یہ پولیو ویکسین تک بنا رہا ہے، یہ اس وقت بھی کورونا ویکسین کا دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے، یہ پوری دنیا کو ویکسین سپلائی کر رہا ہے، یہ اپنے 55 ملین شہریوں کو اپنی بنائی ویکسین بھی لگا چکا ہے جب کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہم ویکسین کے لیے بھی در در بھیک مانگ رہے ہیں۔
ہم نے 1965ءمیں بھارت سے پہلے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) بنایا تھا، یہ ادارہ بیماریوں کی ریسرچ اور ویکسین کی تیاری کے لیے بنایا گیا تھا، آپ نے کبھی اس کے چیئرمین کو بلا کر پوچھا “آپ لوگوں نے اب تک کیا کیا؟ ” آپ نے اب تک پولیو کی ویکسین کیوں نہیں بنائی، ہم نے کبھی ان سے پوچھا آپ نئی چیز ایجاد نہ کریں لیکن دنیا میں جو چیزیں ایجاد ہو چکی ہیں آپ کم از کم وہ ہی بنا لیتے، آپ کو اس سے کس نے روکا تھا؟ ہم نے آج تک پوچھا اور نہ ہی ہم پوچھیں گے، کیوں؟ کیوں کہ ہم آپس کی جنگوں سے فارغ ہوں گے تو ویکسین کی باری آئے گی ناں اور ہم یہ موقع آنے نہیں دیں گے۔
ہم امدادی سامان جمع کرتے کرتے پیدا ہوتے ہیں اور ہم خیرات اور امداد لیتے لیتے فوت ہو جائیں گے، ہم اسی طرح اپنے کُرتے ادھیڑتے اور سیتے رہیں گے، ہم اسی طرح چلتے جہاز کے کاک پٹ میں کبھی اسد عمر، کبھی حفیظ شیخ اور کبھی حماد اظہرکو بٹھاتے اور اٹھاتے رہیں گے، آپ یقین کریں مجھے بعض اوقات محسوس ہوتا ہے ہم خود اس ملک کو چلتا نہیں دیکھنا چاہتے چناں چہ یہ جوں ہی کسی ہموار اور پکی سڑک پر آتا ہے ہم اس گاڑی کو جان بوجھ کر دوبارہ کچے راستے پر اتار دیتے ہیں، ہم کیا کرنا چاہتے ہیں دنیا کا بڑے سے بڑا سائنس دان بھی یہ اندازہ نہیں کر سکتا لیکن سوال یہ ہے یہ کب تک چلے گا؟ آخر کب تک!۔