یہ کون لوگ ہیں؟

0
266
javed chaudhry urdu columns

مجتبیٰ سے میری پہلی ملاقات بہت ڈرامائی تھی، میں “میڈیا مارک” کے نام سے پبلک ریلیشننگ اور ایونٹ مینجمنٹ کی ایک کمپنی چلاتا تھا، روز تین گھنٹے اس دفتر میں بیٹھتا تھا، میں ایک دن دفتر پہنچا تو میں نے باہر اینٹوں کے ڈھیر پر ایک نوجوان کو بیٹھے دیکھا، وہ مجھے دیکھ کر کھڑا ہو گیا، میں نے پوچھا “آپ کون ہیں ” اس نے اپنے نام کے بعد بتایا “میں آپ کے دفتر میں کام کرتا ہوں ” میں نے پوچھا “آپ پھر دفتر کے باہر کیوں بیٹھے ہیں؟ “۔

اس کا جواب تھا “مجھے قاضی عابد صاحب نے نکال دیا ہے” میں نے پوچھا “آپ پھر جاتے کیوں نہیں ہیں؟ ” اس کا جواب تھا “مجھے سمجھ نہیں آرہی میں کہاں جاؤں؟ ” میری ہنسی نکل گئی، میں نے اسےساتھ لیا، اپنے دفتر میں بٹھایا اور شام کو اسے ایکسپریس کے سٹوڈیو میں لے گیا، میرا پروڈیوسر مجھے دھوکا دے کر چلا گیا تھا اور ہم نیا پروڈیوسر تلاش کر رہے تھے، یہ یوسف رضا گیلانی کا دور تھا، اعظم سواتی اس وقت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر تھے اور حامد سعید کاظمی مذہبی امور کے وزیر ہوتے تھے، اعظم سواتی نے حامد سعید کاظمی پر حج کرپشن کا الزام لگا دیا۔

میں نے مجتبیٰ کو دونوں وزراءکے نمبرز دیے اور اسے ٹاسک دیا تم اگر ان دونوں کو شو میں لے آؤ تو تمہیں دوبارہ اینٹوں کے ڈھیر پر نہیں بیٹھنا پڑے گا اور میں اگلے دن حیران رہ گیا مجتبیٰ نے واقعی دونوں کو شو کے لیے تیار کر لیا تھا اور یہاں سے اس کا ٹیلی ویژن کیریئر شروع ہو گیا، انتظامیہ کو اس کی اپوائنٹ منٹ پر دو اعتراض تھے، ایک یہ ابھی پڑھ رہا تھا، اس کی ڈگری مکمل نہیں تھی اور دوسرا یہ میڈیا کو ایک فیصد بھی نہیں جانتا تھا لیکن میں نے اسے اپنی گارنٹی پر پروڈکشن ٹیم میں شامل کر لیا، یہ فیصلہ آگے چل کر بہت اچھا ثابت ہوا اور اس شخص نے کمال کر دیا، یہ دو ماہ میں مہمانوں، پروڈکشن، ایشوز اور سیاسی اتار چڑھاؤ کو سمجھ گیا، اس نے سیاست دانوں سے ذاتی تعلقات بھی استوار کر لیے اور وہ سب ہمارے شو کو مجتبیٰ کا شو کہنے لگے۔

میری مجتبیٰ کے ساتھ یہ رفاقت 9برس جاری رہی، میں اس پر سو فیصد اعتبار کرتا تھا، یہ شو کو اون بھی کرتا تھا اور اس کے سارے فیصلے بھی کیا کرتا تھا، اس نے اس دوران مرضی کی شادی بھی کر لی اور یہ الگ گھر میں آباد بھی ہو گیا، یہ تین بھائی ہیں، والد جوانی میں فوت ہو گئے تھے اور والدہ نے انہیں بڑی مشکل سے پال کر جوان کیا تھا، یہ اپنی ماں کی بہت خدمت کرتا تھا، اس نے 2018ءمیں ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور کینیڈا چلا گیا، آپ یہ جان کر حیران ہوں گے مجتبیٰ میری زندگی کا واحد شخص ہے جسے میں نے نوکری چھوڑنے سے روکا تھا، میری عادت ہے میں جانے والوں کو واسطہ نہیں دیتا راستہ دیتا ہوں۔

آپ بھی کوشش کیا کریں آپ کو جو شخص چھوڑ کر جارہاہے آپ اسے جانے دیں، اسے روکیں مت کیوں کہ اس نے جانا ہی جانا ہے، آپ اسے جتنا روکیں گے آپ کو اتنی توہین اور فرسٹریشن ہو گی، میں نے زندگی میں مجتبیٰ کے علاوہ کسی کو نہیں روکا لیکن یہ محسوس کرتا تھا پاکستان میں اس کے بچوں کا کوئی مستقبل نہیں، یہ انہیں اعلیٰ تعلیم اور آگے بڑھنے کے زیادہ مواقع دینا چاہتا تھا، میں نے سمجھایا دنیا میں فیملی سے زیادہ کوئی چیز اہم نہیں ہوتی، خاندان کو ہمیشہ اکٹھا رہنا چاہیے تم اپنے بچوں کو تین چار سال کے لیے چھوڑ کر جا رہے ہو، یہ ٹھیک نہیں مگر یہ نہ مانا اور یہ کیلیگری چلا گیا، شہریت اپلائی کی اور محنت مزدوری شروع کر دی، اس کی بیگم اور دونوں بیٹے پاکستان میں رہ گئے، اس نے فیملی کی “پی آر” اپلائی کی، یہ منظور ہو گئی اور فیملی نے جون جولائی میں اس کے پاس چلے جانا تھا لیکن پھر جمعرات یکم اپریل 2021ءکی شام آ گئی۔

مجتبیٰ کی بیگم، دونوں بچے، دو بھائی، دو بھابھیاں اور والدہ پنڈ دادن خان سے اسلام آباد واپس آ رہی تھیں، یہ لوگ دومختلف گاڑیوں میں تھے، ایک گاڑی میں مجتبیٰ کا چھوٹا بھائی، اس کی بیگم، مجتبیٰ کی بیگم اور دونوں بیٹے تھے جب کہ دوسری گاڑی میں دوسرا بھائی، والدہ اور اس کی فیملی تھی، یہ لوگ موٹروے پر پرانے ٹول پلازہ کے پاس پہنچے تو اچانک سامنے ایک موٹر سائیکل آ گیا، موٹر سائیکل سوار ون ویلنگ کر رہا تھا، میں آپ کو یہاں یہ بھی بتاتا چلوں موٹر وے پر موٹر سائیکل کی اجازت نہیں ہے لیکن بے شمار نوجوانوں نے جنگلے توڑ رکھے ہیں اور یہ ان جنگلوں سے نکل کر اچانک موٹر وے پر آ جاتے ہیں اور گاڑیوں کے ساتھ ریس لگانا شروع کر دیتے ہیں۔

یہ ون ویلنگ بھی کرتے ہیں، وہ موٹر سائیکل سوار بھی اچانک سامنے آیا اور ون ویلنگ شروع کر دی، مجتبیٰ کے بھائی نے موٹر سائیکل سوار کو بچانے کی کوشش کی، گاڑی سیمنٹ کے ڈیوائیڈر کے ساتھ ٹکرا گئی، ٹائر پھٹا، گاڑی الٹی اور گھسٹتی ہوئی کھمبے سے جا ٹکرائی، مجتبیٰ کی بیگم، چھوٹا بیٹا اور بھابھی فوت ہو گئی جب کہ بھائی اور بڑا بیٹا زخمی ہو گئے۔ یہ حادثہ تھا اور حادثے پوری دنیا میں ہوتے ہیں لیکن حادثوں کے بعد ریسپانس ریاست اور معاشرہ دونوں کے فیل یا پاس ہونے کا فیصلہ کرتا ہے اور اس دن یہ دونوں فیل ہو گئے۔

گاڑی موٹروے پر الٹی پڑی تھی لیکن موٹر وے پولیس پہنچی اور نہ ہی ایمبولینس، لوگ بھی قریب سے گزرتے رہے، اس دوران ایک کیری ڈبے والا آیا اور اس نے لاشیں اور زخمی اٹھائے، مجتبیٰ کے بھائی کے بقول اس کی بیگم کیری ڈبے میں شفٹنگ تک زندہ تھی، اگر ایمبولینس وقت پر آ جاتی اور اسے بروقت طبی امداد مل جاتی تو شاید وہ بچ جاتی لیکن سٹیٹ کے پاس لاشیں اٹھانے، مریضوں کو ہسپتال پہنچانے اور موٹروے کو موٹر سائیکلوں اور ون ویلنگ سے محفوظ رکھنے سمیت کسی چیز کے لیے وقت نہیں تھا چناں چہ ایک بھرا ہوا آباد خاندان چند منٹوں میں اجڑ گیا۔

آپ ریاست کے ساتھ ریاست کے بیٹوں کا ردعمل بھی ملاحظہ کیجیے، لوگوں نے حادثے کی شکار گاڑی میں سے ہر چیز لوٹ لی، لاشوں کا زیور بھی غائب تھا، بیگز بھی، رقم بھی اور باقی چیزیں بھی۔ مجتبیٰ کو کینیڈا میں اطلاع دی گئی، اس کا پاسپورٹ حکومت کے پاس تھا لہٰذا وہ جنازے میں شریک نہ ہو سکا، اس کی بیگم اور چھوٹے بیٹے کو عزیزوں اور رشتے داروں نے دفن کیا، بڑا بیٹا سات برس کا ہے اور زخمی ہے، یہ حادثہ اس کی نظروں کے سامنے ہوا تھا۔

اس نے اپنی آنکھوں سے اپنے خاندان کو مرتے دیکھا تھا چناں چہ آپ اس کی ذہنی حالت کا اندازہ خود کر لیجیے، مجتبیٰ اب اپنے بیٹے کو جلد سے جلد کینیڈا بلوانے کی کوشش کر رہا ہے، کینیڈا کا قانون ہے اگر خاندان دو مختلف ملکوں میں ہو اور والدین میں سے کسی ایک کا دوسرے ملک میں انتقال ہو جائے اور نابالغ بچہ اکیلا رہ جائے تو حکومت بچے کو فوری انٹری دے دیتی ہے، مجتبیٰ اب بیٹے کے لیے کوشش کر رہا ہے، میری کل اس سے بات ہوئی، ہم دونوں رو رہے تھے، وہ بھی اور میں بھی۔

اس نے روتے روتے کہا “سر انسان کو کسی قیمت پر اپنے خاندان سے دور نہیں رہنا چاہیے، میں اگر پاکستان ہوتا تو میں کم از کم اپنے بیٹے، بیوی اور بھابھی کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتار دیتا، یہ دکھ اب پوری زندگی میرے ساتھ رہے گا” اس کا کہنا تھا “میں جلد سے جلد اپنے بیٹے کو یہاں بلانا چاہتا ہوں اور میں باقی زندگی صرف اور صرف اسے دے دوں گا، میرا بیٹا ہی اب میرا پروفیشن اور میرا کیریئر ہے” میں نے اس سے کہا “فیملی دنیا کا سب سے بڑا اثاثہ ہوتی ہے اور کسی قیمت پر خواہ وہ اچھے ملکوں کی شہریت ہو، پروفیشن ہویا پھر دولت، اقتدار اور شہریت ہو ہمیں یہ اثاثہ ہاتھ سے نہیں نکلنے دینا چاہیے” اس نے روتے روتے جواب دیا “سر آپ کی یہ بات سو فیصد درست ہے اور میں نے یہ اثاثہ کھو دیا”۔

مجتبیٰ کی ٹریجڈی میں تین سبق چھپے ہیں، ایک ذاتی اور دوریاستی، ہم انسانوں کو کسی بھی قیمت پر اپنے خاندان سے دور نہیں ہونا چاہیے، ہماری ساری خوشیاں ہمارے خاندان سے وابستہ ہیں، یہ ہے تو ہم ہیں، یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں چناں چہ ہمیشہ فیملی کے ساتھ رہیں، دوسرا ملک میں قانون کی حکمرانی کی حالت یہ ہے موٹروے پر بھی موٹر سائیکل آ جاتے ہیں اور ریاست انہیں بھی نہیں روک پاتی، ٹریفک دنیا میں تہذیب اور قانون کی حکمرانی کا پہلا ٹیسٹ ہوتی ہے اور ہم روز اس ٹیسٹ میں ناکام ہوتے ہیں۔

حکومت اگر ملک میں ٹریفک لاز کی پابندی بھی نہیں کرا سکتی تو پھر اس حکومت کو حکومت اور ریاست کو ریاست نہیں کہنا چاہیے، کیا وزیراعظم کے پاس اس کے لیے بھی وقت نہیں؟ ٹریفک لاز کی پابندی کرانے کے لیے کسی قسم کی رقم اور کسی اسٹیبلشمنٹ سے اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی، صرف تھوڑی سی توجہ چاہیے اور کیا وزیراعظم یہ بھی نہیں کر سکتے اور آخری سبق، ہم ہر جگہ موٹروے پولیس کی کارکردگی کا ڈھول پیٹتے ہیں لیکن عملاً صورت حال یہ ہے موٹروے پولیس کے پاس ایمبولینس بھی نہیں اور ہسپتال بھی نہیں۔

یہ لاشیں بھی نہیں اٹھا سکتی، کیا یہ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام نہیں اور آخری بات یہ کون لوگ ہیں جو موٹروے پر بھی ون ویلنگ کر لیتے ہیں اور کوئی انہیں روکنے کی ہمت نہیں کرتا، کاش یہ معاشرہ زندہ ہوتا تو ان لوگوں کو لوگ ہی روک لیتے لیکن شاید ہم شرف انسانیت سے بہت نیچے چلے گئے ہیں، وہاں چلے گئے ہیں جہاں ریاست، حکومت اور عوام تینوں کی نبضیں بند ہو چکی ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here