یونان کے قدیم فلسفے کے مطابق گھوڑا، گھوڑا بننے سے پہلے گدھا ہوتا تھا، گدھوں میں سے چند گدھوں نے سفر شروع کر دیا اور یہ آہستہ آہستہ گھوڑے بن گئے جب کہ پیچھے رہ جانے والے آج بھی گدھے ہیں، سفراللہ تعالیٰ کی شان دار ترین نعمت ہے، آپ اگر سیاحت شروع کر دیں تو آپ اپنی تمام تر نالائقی، سستی اور کاہلی کے باوجود ابن بطوطہ اور مارکو پولو بن جاتے ہیں اور لوگ صدیوں تک آپ کی مثال دیتے ہیں، ہمارا گروپ آئی بیکس بھی یہی کرتا ہے، ہم لوگ گھوڑے بننے کے لالچ میں ملکوں ملکوں پھرتے رہتے ہیں، گو ہم ابھی تک مکمل گھوڑے نہیں بن سکے لیکن ہم سفر کی برکت سے گدھے بھی نہیں رہے، ہماری آنکھیں بہرحال کھلتی چلی جارہی ہیں۔
ہمارا گروپ کورونا کے دوران پانچ مرتبہ ترکی گیا، آپ یقین کریں ترکی نے ہمیں حیران کر دیا، یہ لوگ ہفتے میں دو دن لاک ڈاؤن کرتے تھے لیکن جب لاک ڈاؤن ہوتا تھا تو پھر پورے ملک میں سیاحوں کے علاوہ کوئی شخص سڑک پر نظر نہیں آتا تھا، ہم نے چھوٹے چھوٹے دیہات میں بھی کسی شخص کو ماسک کے بغیر اور کسی کو کسی کے ساتھ ہاتھ ملاتے نہیں دیکھا، پورا ملک ایس او پیز پر عمل کرتا نظر آتا تھا، یہ ایک صورت حال تھی جب کہ دوسری طرف ترکی نے کورونا کے دوران بھی اپنی ٹورازم انڈسٹری بند نہیں ہونے دی۔
ترکش ائیر لائین بھی چلتی رہی اور ترکی میں سیاحوں کے لیے ہوٹل، ریستوران اور میوزیم بھی کھلے رہے، ہم فروری میں کونیا گئے، کونیا میں لاک ڈاؤن تھا، پورے شہر میں ہوکا عالم تھا لیکن ہم شہر میں گھوم بھی رہے تھے اور ہمارے لیے مولانا روم کا مزار بھی کھول دیا گیا تھا، سیاح لاک ڈاؤن میں بھی پاسپورٹ دکھا کر کہیں بھی جا سکتے تھے، حکومت نے ایس او پیز پر عمل کرنے والے ہوٹل بھی کھول رکھے تھے، ترکی حکومت نے اب سیاحتی انڈسٹری کو 2018ءپر واپس لانے کے لیے سات اپریل سے ٹورازم سے وابستہ تمام لوگوں کو ویکسین لگانا بھی شروع کر دی ہے۔
ہ اپریل کے مہینے میں ٹورازم کمپنیوں کے ورکرز، گائیڈز، ریستورانوں کے ملازمین، ہوٹلز کے عملے اور میوزیمز میں کام کرنے والوں کو ویکسین لگا دے گی، سیاحتی انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کو ویکسین لگانے کے بعد انہیں “سیف ٹورازم سر ٹیفکیٹ” جاری کر دیے جائیں گے اور یوں ٹورازم کمپنیاں کھل کر بزنس کر سکیں گی، انڈونیشیا بھی کل سے پرائیویٹ کمپنیوں کو ویکسین امپورٹ کرنے اور اپنے کارکنوں کو کورونا فری بنانے کی اجازت دے رہا ہے، اس کے بعد انڈونیشیا کی کمپنیاں اپنے لیے ویکسین منگوائیں گی اور اپنے لوگوں کو کورونا کے خطرے سے پاک کر لیں گی۔ یہ دو مثالیں ہیں، یہ دونوں برادر اسلامی ملکوں کی ہیں اور یہ اسد عمر کے لیے ہیں۔
مجھے کل میرے دو دوستوں نے پاکستان میں کورونا ویکسین کے سلسلے میں چند تجاویز بھجوائیں، تجاویز کا پہلا پیکج رانا طارق محبوب نے بھجوایا، یہ رائل ٹیگ کے نام سے گارمنٹس کا ایک برینڈ چلا رہے ہیں اور یہ ریٹیلرز ایسوسی ایشن پاکستان کے صدر بھی ہیں، ایسوسی ایشن کے 21 ہزار ممبرز ہیں، رانا صاحب کا کہنا ہے ملک میں دو قسم کی مارکیٹیں ہیں، مالز اور بانو بازار ٹائپ تنگ مارکیٹیں، کورونا کے دوران دونوں کی اپروچ میں فرق ہے، ملک کے تمام مالز کورونا ایس او پیز پر عمل کر رہے ہیں جب کہ چھوٹی مارکیٹیں ان کی پرواہ نہیں کر رہیں لیکن حکومت نے دونوں کو ہفتے کے دو دن کے لیے بند کر دیا یعنی حکومت کی نظر میں ایس او پیز پر عمل کرنے اور نہ کرنے والے برابر ہیں۔
حکومت کو چاہیے یہ ایس او پیز پر عمل کرنے والوں کو کاروبار کرنے دے اور جہاں احتیاط نہیں کی جا رہی وہ مارکیٹیں بند کر دے تا کہ کورونا کو بھی روکا جا سکے اور کاروبار بھی چلتا رہے، دوسرا ٹیکسٹائل انڈسٹری ملک کی مین انڈسٹری ہے، ہم ملک کی مانگ بھی پوری کر رہے ہیں اور ایکسپورٹ بھی کر رہے ہیں لیکن یہ انڈسٹری کورونا میں سب سے زیادہ متاثر ہوئی جس کی وجہ سے پورے ملک کی اکانومی بیٹھ رہی ہے، حکومت کو چاہیے یہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے ویکسین کا خصوصی بندوبست کر دے تاکہ ہم اپنے ورکرز کو ویکسین لگا کر اس انڈسٹری کو بچا لیں۔
حکومت اگر یہ نہیں کر سکتی تو یہ پھر ہمیں اپنی انڈسٹری کے لیے ویکسین امپورٹ کرنے اور اپنے کارکنوں کو ویکسین لگوانے کی اجازت دے دے، ٹیکسٹائل انڈسٹری کے جو برینڈ اپنے لوگوں کو ویکسین لگوا دیں حکومت انہیں “کورونا فری یا کووڈ ویکسی نیٹڈ” کا سر ٹیفکیٹ جاری کر دے اور انہیں اس کے بعد کام کرنے کی اجازت دے دے، ان کو پھر لاک ڈاؤن کی تلوار کے نیچے سے نکال لیا جائے اور جو نہ کرے اسے بے شک بند کر دیں، رانا صاحب کا کہنا تھا حکومت ہمیں خود سرکاری قیمت پر ویکسین بھی منگوا کر دے سکتی ہے۔
ہم سرکاری خزانے پر بوجھ نہیں بننا چاہتے لیکن انڈسٹری ساڑھے بارہ ہزار روپے فی کس کی ویکسین افورڈ نہیں کر سکتی، میری فیکٹری میں اگر پانچ سو لوگ کام کرتے ہیں اور میں اگر انہیں ویکسین لگواتا ہوں تو مجھے 62لاکھ پچاس ہزارروپے چاہییں اور میں اگر ان لوگوں کے خاندانوں کو بھی شامل کر لیتا ہوں تو ان کی تعداد اڑھائی ہزار تک چلی جائے گی اور اخراجات تین کروڑ12 لاکھ 50ہزار روپے ہو جائیں گے اور یہ ظاہر ہے میرے لیے ایک بڑی رقم ہو گی لیکن اگر حکومت مجھے امپورٹ ریٹ پر ویکسین دے دے تو میں یہ بوجھ برداشت کر لوں گا اور یوں میں، میری انڈسٹری اور پھرپوری ملکی معیشت بچ جائے گی۔
یہ رانا طارق محبوب کی تجاویز تھیں، تجاویز کا دوسرا پیکج الخدمت فاؤنڈیشن کے صدر محمد عبدالشکور نے پیش کیا، شکور صاحب نے اسد عمر کو خط بھی لکھا، الخدمت حکومت کی ویکسی نیشن مہم کا حصہ بننا چاہتی ہے، ان لوگوں کا کہنا ہے ویکسی نیشن کے علاوہ کورونا سے نکلنے اور بچنے کا کوئی طریقہ نہیں اور حکومت یہ کام اکیلی نہیں کر سکے گی چناں چہ ہم حکومت کو اپنی خدمات پیش کرتے ہیں، شکور صاحب کی تجاویز ہیں حکومت الخدمت سمیت ملک کی تمام بڑی این جی اوز کو غیر تجارتی بنیادوں پر ویکسین درآمد کرنے کی اجازت دے دے، یہ اپنی رقم سے حکومت کی نگرانی میں ویکسین امپورٹ کریں اور پھر عوام کو لگانا شروع کر دیں۔
حکومت احساس پروگرام میں رجسٹرڈ غریب لوگوں کے لیے احساس فنڈ سے ویکسین منگوائے اور یہ ویکسین بھی این جی اوز کے ذریعے غریب خاندانوں کو لگوا دے اور ان کی تیسری تجویز ہے کورونا کی وجہ سے ملک میں تعلیمی ادارے بند ہیں، یہ ایک سال میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے، حکومت انہیں بھی غیرتجارتی بنیادوں پر ویکسین امپورٹ کرنے کی اجازت دے دے تاکہ یہ اپنے سٹاف اور اساتذہ کو ویکسین لگائیں تاکہ ملک میں سکول، کالج اور یونیورسٹیاں کھل سکیں، یہ بھی رانا طارق محبوب کی طرح اسد عمر اور ڈاکٹر فیصل سلطان سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں مگر شاید اسد عمر اور ڈاکٹر فیصل سلطان کے پاس وقت کی قلت ہے چناں چہ یہ ان کے فارغ ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔
ہمیں اب یہ تسلیم کرلینا چاہیے کورونا ہماری ریاستی مشینری سے کہیں بڑی مصیبت ہے، وہ ریاست جو آج تک ٹریفک کنٹرول نہیں کر سکی، وہ کورونا خاک کنٹرول کرے گی لہٰذا پاکستان کورونا کے ریڈزون میں داخل ہو چکا ہے، کورونا کی شرح پنجاب میں 12فیصد، سندھ 11 فیصد، کے پی کے میں پشاورمیں 28فیصد، نوشہرہ میں 19 فیصد، بونیر میں 16 فیصد، مردان اور مالاکنڈ میں 12 فیصد اور باجوڑ، چارسدہ اور صوابی میں 11 فیصد ہے اور بلوچستان کی شرح کسی کو معلوم ہی نہیں، کیوں؟ کیوں کہ وہاں ٹیسٹ ہی نہیں ہو رہے۔
یہ اعدادوشمار انتہائی خطرناک ہیں، حکومت نے تین فروری 2021ءکو ویکسین لگانا شروع کی لیکن ہم65دنوں میں بمشکل 9 لاکھ لوگوں کو ویکسین لگا پائے ہیں اور یہ کل آبادی کا صرف اعشاریہ چارفیصد بنتا ہے، 21کروڑ91لاکھ لوگ ابھی باقی ہیں، اگر حکومت کی یہ رفتار رہی تو ہم اگلے پانچ برسوں میں بھی کل آبادی کو ویکسین نہیں لگا پائیں گے اور اس وقت تک ہماری معیشت اور معاشرت کی کیا حالت ہو گی؟ ہم اس کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں چناں چہ حکومت کو چاہیے یہ انڈسٹری اور این جی اوز کی مدد لے لے۔
یہ چین، روس اور امریکا سے ویکسین کی قیمت طے کرے اور ویکسین کا ایشو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کر دے، کمپنیاں اور این جی اوز ویکسین منگوائیں اور اپنے ورکرز اور عوام کو لگانا شروع کر دیں، حکومت صرف نگرانی کرے اور جو ادارہ ویکسین مکمل کر لے اسے کورونا فری کا سر ٹیفکیٹ جاری کر دے اور وہ ادارہ اپنا کام یا کاروبار جاری رکھ سکے جب کہ ملک کا جو ادارہ یا شخص ویکسین نہ لگائے حکومت اسے گھر تک محدود کر دے، وہ لاک ڈاؤن ہو جائے، ہم اس تکنیک سے چند ماہ میں پورا ملک کھولنے کے قابل ہو جائیں گے۔
حکومت کو ماسک بھی لازمی قرار دینا ہو گا، ہم میں سے جو شخص ماسک استعمال نہ کرے، اسے بھاری جرمانہ کیا جائے تاہم حکومت کو یہ کام اپنی سطح سے شروع کرنا چاہیے، ہمارے وزرائ، پارلیمنٹیرینز اور سرکاری افسر بھی ماسک استعمال نہیں کرتے، ہمیں بہرحال یہ رویہ بدلنا ہو گا ورنہ وہ وقت دور نہیں جب دنیا کھل جائے گی اور ہم بند ہو جائیں گے اور ہمارے ملک میں کوئی داخل ہو گا اور نہ ہمیں داخل ہونے دے گا، ہم اگر اس انجام سے بچنا چاہتے ہیں تو پھر حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر دونوں کو مل کر کام کرنا ہوگا لہٰذا میری اسد عمر سے درخواست ہے آپ پرائیویٹ سیکٹر کو اپنے ساتھ شامل کر لیں، اسی میں بہتری ہے، حکومت نے اگر اس میں بھی دیر کر دی تو پھر ہم سب مل کر بھی کورونا کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔