مغل بادشاہ شاہ جہاں کے پاس ایک ترک غلام تھا، وہ بادشاہ کو پانی پلانے پر تعینات تھا، سارا دن پیالہ اور صراحی اٹھا کر تخت کے پاس کھڑا رہتا تھا، بادشاہ اس کی طرف دیکھتا تھا تو وہ فوراً پیالہ بھر کرپیش کر دیتا تھا، وہ برسوں سے یہ ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا اور بڑی حد تک بادشاہ کا رمز شناس ہو چکا تھا لیکن ایک دن اس سے غلطی ہو گئی، بادشاہ کو پیالہ پیش کیا، بادشاہ گھونٹ بھرنے لگا توشاہی پیالے کا ایک کنارہ جھڑا ہوا تھا اور ٹوٹے ہوئے پیالے میں پانی پینا ہندوستان کے بادشاہ کی توہین تھی، بادشاہ نے پیالہ نیچے دے مارا اور غلام کو بیس کوڑے لگانے کی سزا سنا دی، بادشاہ کا حکم آخری حکم تھا، غلام کو کوڑے بھی لگ گئے اور وہ ڈیوٹی سے فارغ بھی ہو گیا، وقت بدلا، اورنگزیب عالمگیر نے اپنے والد کو قید میں ڈال دیا اور وہ تمام غلام اور ملازمین بوڑھے بادشاہ پر تعینات کر دیے جنہیں کبھی شاہ جہاں نے سزائیں دی تھیں، وہ پانی پلانے والا غلام بھی ان ملازموں میں شامل تھا، بادشاہ کو قید میں پیاس محسوس ہوئی، پانی مانگا، غلام آیا اور پیالہ بادشاہ کے ہاتھ میں پکڑا دیا، بادشاہ نے پیالے کو غور سے دیکھا، وہ شکستہ تھا اور کسی نے اس کی کرچیاں، اس کی ٹھیکریاں جوڑ کر اسے قابل استعمال بنایا تھا، بادشاہ نے حسرت سے پیالہ دیکھا اور پھر غلام کی طرف دیکھ کر پوچھا “میرے ساتھ یہ سلوک کیوں؟
” غلام نے مسکرا کر عرض کیا “حضور یہ وقت کا سلوک ہے، یہ وہی پیالہ ہے جس کا ایک کونا بھرنے پر آپ نے اس میں پانی پینے سے انکار کر دیا تھا اور اسے زمین پر مار کر توڑ دیا تھا، میں نے اس ٹوٹے ہوئے پیالے کی کرچیاں اٹھا لی تھیں، میں نے انہیں جوڑا اور اس گھڑی کا انتظار کرنے لگا جب آپ کو وقت اس پیالے میں پینے پر مجبور کرے گا اور بادشاہ سلامت وہ وقت آ گیا” شاہ جہاں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ یہ آنسو اگر نہ بھی آتے تو بھی بادشاہ نے باقی زندگی پانی اسی ٹوٹے ہوئے پیالے میں پینا تھا، کیوں؟ کیوں کہ یہ دنیا ایک وادی ہے اور اس وادی میں ہر شخص کواپنی انا، اپنے تکبر اور اپنی حماقتوں کی بازگشت بہرحال سننا پڑتی ہے۔
عمران خان شاہ جہاں نہیں ہیں اور یہ حکومت بھی مغلیہ نہیں لیکن اس کے باوجود آپ کو 2014ء کے دھرنے یاد ہوں گے، آپ کو اگر وہ یاد ہیں تو پھر آپ کو یہ بھی یاد ہو گا عمران خان، شیخ رشید، عارف علوی اور ہم نوا اس وقت کیا کہاکرتے تھے؟ آپ کو یہ بھی یاد ہو گا تحریک لبیک پاکستان نے نومبر 2017ء میں فیض آباد میں دھرنا دیاتو شیخ رشید نے تحریک لبیک اور دھرنے کی کس طرححمایت کی تھی، عمران خان کے اس وقت کیا خیالات تھے؟
آج کے وزیراعظم اُس وقت فرمایا کرتے تھے، احتجاج ان کا جمہوری حق ہے اور یہ سچے عاشق رسولؐ ہیں، آپ کو یہ بھی یاد ہو گا میاں نواز شریف کا ووٹ بینک توڑنے کے لیے تحریک لبیک پاکستان کو 2018ء کے الیکشنز میں کھڑا کیا گیا تھا اور پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں نے اس الیکشن تکنیک پر ایک دوسرے کو مبارک بادیں دی تھیں اور آپ کو یہ بھی یاد ہو گا6مئی 2018ء کو نارووال میں احسن اقبال پر حملہ ہوا، یہ زخمی ہوئےاور اس وقت ان کے بارے میں کیا کہا گیا لیکن آج صرف اڑھائی سال بعد وہ ساری آوازیں لوٹ کر آرہی ہیں اور آج کے شاہ جہاں اپنے ہی توڑے ہوئے پیالے منہ سے لگانے پر مجبور ہو رہے ہیں، آج وہی پولیس ہے جسے یہ ریڈزون میں دھمکیاں دیا کرتے تھے، جس کے ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو کوکانسٹی ٹیوشن ایونیو پر ڈنڈے مار مار کر زخمی کر دیا گیا تھا اور جس پولیس کو عمران خان نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر کہا تھا “میں تمہیں اپنے ہاتھ سے پھانسی دوں گا” آج حکومت اس پولیس کو ریاست قرار دے رہی ہےاور وہ لوگ جن کے احتجاج کو 2017ء اور 2018ء میں جمہوری حق کہا گیا تھا وہ آج عمران خان کی حکومت میں بین بھی ہو چکے ہیں اور ان پر کریک ڈائون بھی جاری ہے اور یہ بازگشت صرف یہیں تک محدود نہیں، آپ کو یاد ہو گایہ لوگ اسحاق ڈار کو کیا کہتے تھے، حفیظ شیخ اور شوکت ترین کے بارے میں ان کے کیا خیالات تھے اور جب خواجہ آصف پر سیالکوٹ میں سیاہی پھینکی گئی تھی یا میاں نواز شریف کوجامعہ نعیمیہ میں جوتا مارا گیا تھا یا لوگوں نے ائیرپورٹ پر پرویز رشید کو گھیر لیا تھا تویہ لوگ کیا کہتے تھے اور یہ ڈالر کی قیمت میں ایک روپیہ اضافے پر بھی کیا کہتے تھے اور جب بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھتی تھیں یا پی آئی اے، سٹیل مل اور ریلوے کو پرائیویٹائز کرنے کی کوشش ہوتی تھی یا وزیراعظم برطانیہ، امریکا، سعودی عرب، چین اور بھارت کے دورے کرتے تھے تو ان کے کیا خیالات ہوتے تھے؟
یہ گورنر ہائوسز، پرائم منسٹر ہائوس اور جنوبی پنجاب کے بارے میں کیا کہتے تھے اور یہ کس کو مہنگائی میں اضافے کا ذمہ دار ٹھہراتے تھے، یہ لوگ کس طرح روزانہ آٹھ ارب روپے کی کرپشن کا رونا روتے تھے، یہ اقرباء پروری اور دوستوں کو وزارتیں دینے کی کس طرح دہائیاں دیتے تھے اور یہ ملک سے آٹھ ہزار ارب روپے ٹیکس جمع کرنے، قرضے منہ پر مارنے اور بیرون ملک اکائونٹس میں پڑی رقمیں واپس لانے کے دعوے بھی کس کس طرح کرتے تھے اور یہ شیخ رشید کو چپڑاسی نہ رکھنے، چودھری صاحبان کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو اور ایم کیو ایم کے ارکان کو بھی کس طرح زندہ لاشیں کہتے تھے، یہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے جان چھڑانے، مہنگائی کنٹرول کرنے، ایک کروڑ ملازمتیں دینے، پچاس لاکھ گھر بنانے، پولیس ریفارمز، سول بیوروکریسی کی خودمختاری اور میرٹ پر تقرریوں کے لیے بھی کس طرح مرے جاتے تھے لیکن پھر کیا ہوا؟
شاہ جہاں ٹوٹے ہوئے پیالے کو منہ لگانے پر مجبور ہو گیا، وہ آصف علی زرداری جس کے دور میں ملکی قرضے ساڑھے چھ ہزارارب روپے سے ساڑھے تیرہ ہزار ارب روپے تک پہنچ گئے عمران خان اس کے دونوں وزراء خزانہ حفیظ شیخ اور شوکت ترین کو وزیر خزانہ بنانے پر مجبور ہوگیا، صرف سلیم مانڈویوالا بچے ہیں اور مجھے خطرہ ہے یہ بھی آخر میں عمران خان کی کابینہ میں شامل ہو جائیں گے اور شاید وہ وقت بھی آ جائے جب عمران خان لندن فون کریں اور اسحاق ڈار کو پاکستان آنے اور وزارت خزانہ سنبھالنے کی پیش کش کر دیں، ان سے اب کچھ بھی بعید نہیں، یہ کسی روز مولانا سعد رضوی کو بھی وزیرداخلہ بنا سکتے ہیں، کیوں؟ کیوں کہ یہ جو کہتے ہیں یہ ہمیشہ ا س سے الٹ کرتے ہیں۔
یہ اس ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ کیا ہم سرکس میں بیٹھے ہیں، یہ لوگ ایک دن بھارت کے ساتھ تجارت کھولتے ہیں اور دوسرے دن بند کر دیتے ہیں اور تیسرے دن پھر کھولنے کی منصوبہ بندی شروع کر دیتے ہیں، یہ کبھی حفیظ شیخ کو معاشی بقراط سمجھتے ہیں پھر اسے فارغ کرتے ہیں اور اس سے آخری ملاقات بھی نہیں کرتے، یہ پھر حماد اظہر کو “اپنا” وزیر خزانہ قرار دے کر کرسی پر بٹھاتے ہیں اور پھر اس سے قلم دان لے کر ایک ایسے شخص کے حوالے کر دیتے ہیں جس پر نیب کے کیسز ہیں، جو آصف علی زرداری کے جعلی اکائونٹس کے ذمہ دار انور مجید کا رشتے دار اور دوست ہے اور جس نے اومنی گروپ کو بینک لون دیے تھے اور یہ نئے وزیر خزانہ وزیراعظم سے پہلی ملاقات میں کیا کہتے ہیں؟
یہ کہتے ہیں ہمیں پاکستان کی معیشت کو اسحاق ڈار کے دور میں واپس لانا ہو گا، یہ فواد چودھری کو وزارت اطلاعات سے ہٹاتے ہیں، فردوس عاشق اعوان کو لاتے ہیں، اسے کرپٹ کہہ کر ہٹاتے ہیں، پھر اس “کرپٹ” کو پنجاب میں لگا دیتے ہیں، ڈرائیونگ سیٹ پر شبلی فراز کو بٹھاتے ہیں اور پھر ایک دن انہیں بھی ہٹا کر وزارت اطلاعات ایک بار پھر فواد چودھری کے حوالے کر دیتے ہیں اور یہ تحریک لبیک کوعاشق رسولؐ قرار دیتے ہیں اور پھر اس پر پابندی لگا دیتے ہیں، یہ کیا ہو رہا ہے؟ مجھے خطرہ ہے یہ کسی دن خود کو فیلڈ مارشل، چیئرمین مائو یا سلطان ارطغرل ڈکلیئر نہ کر دیں یا کسی دن پورے ملک کی امامت نہ فرما دیں اور ہم سب ان کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز توبہ ادا کر رہے ہوں۔
میں نے اپنی پروفیشنل لائف میں بے شمار لوگوں کو اپنے بڑے بولوں کا نشانہ بنتے دیکھا لیکن جتنا جلد اور خوف ناک طریقے سے یہ لوگ نشانہ بنے ہیں آپ یقین کریں ایسی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی، آپ انتہا دیکھیے، یہ ریاست مدینہ کا نام لیتے ہیں اور ساتھ ہی چین کو پاکستان میں شراب کی فیکٹری لگانے کی اجازت دے دیتے ہیں، یہ ویکسین تک امداد کی حاصل کرتے ہیں اور ان کے پاس ہر مسئلے کا ایک ہی حل ہے، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور فون سروس بند کر دیں، یہ عثمان بزدار پر ڈٹے ہوئے ہیں، یہ آج بھی یہ سمجھتے ہیں عثمان بزدار میں علامہ اقبال کے شاہین کی روح چھپی بیٹھی ہے اور یہ کسی بھی وقت پورے صوبے کو چٹانوں پر بسیرا کرا دیں گے، عثمان بزدار کے بعد اب روحانی طاقتیں حماد اظہر پرمنڈلا رہی ہیں، پنجاب کا نصیب اب ان میں دکھائی دے رہا ہے، یہ کیا لوگ ہیں؟
یہ شاید قدرت کی بازگشت ہیں، یہ مکافات عمل کی وہ کھلی کتابیں ہیں جو صدیوں تک قوموں کے لیے عبرت کی نشانی بنی رہتی ہیں، خدا کے لیے انہیں روکیں ورنہ یہ ہمیں رکنے کے قابل بھی نہیں چھوڑیں گے، یہ وہ شاہ جہاں ہیں جو ٹوٹے پیالے صرف اپنے ہونٹوں سے نہیں لگاتے بلکہ پوری قوم کی ناک بھی ان میں ڈبو دیتے ہیں لہٰذا اب بس کریں، قوم کی بس ہو چکی ہے۔