ملک اب بدلے گا

0
269
javed chaudhry urdu columns

میاں نواز شریف 19 نومبر 2019 کو علاج کے لیے لندن چلے گئے، ملک میں آج بھی یہ تاثر ہے یہ ڈیل کے ذریعے باہر گئے ہیں اور یہ ڈیل اسٹیبلشمنٹ نے حکومت کی مرضی کے بغیر کی تھی، یہ تاثر جمعہ 23 اپریل کی رات سینئر صحافیوں کے سامنے زائل کر دیا گیا۔

ہمیں بتایا گیا میاں نواز شریف کو فوج نے باہر نہیں بھجوایا تھا، یہ فیصلہ خالصتاً عدلیہ اور حکومت کا تھا تاہم یہ درست ہے وزیراعظم نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے رائے لی تھی اور انھوں نے ان سے کہا تھا، آپ کے پاس دو آپشن ہیں۔

آپ میاں نواز شریف کو علاج کے لیے جانے دیں اور عوام کی طرف سے برا بھلا سنیں یا پھر اگر خدانخواستہ انھیں جیل میں کچھ ہو جاتا ہے تو ایک اور بھٹو برداشت کریں لیکن فیصلہ بہرحال آپ نے کرنا ہے اور یہ فیصلہ وزیراعظم نے کیا، کابینہ میں تین وزراء کے علاوہ تمام وزیر نواز شریف کو باہر بھجوانے کے حق میں تھے، یہ تمام یہ کہتے رہے، جانے دیں جان چھڑائیں، یہ بھی بتایا گیا فوجی قیادت نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان سے ان کے حلف کی تقریب کے بعد درخواست کی تھی۔

سیکیورٹی اداروں کی حراست میں موجود لوگوں کے لیے سپریم کورٹ کوئی قانونی راستہ نکال دے، پولیس بھی انھیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور قبائلی علاقوں میں سول انتظامیہ نہیں ہے، ہم کیا کریں، ہمیں سمجھ نہیں آ رہی، چیف جسٹس نے جواب دیا، ہمارے پاس بھی کوئی قانونی گنجائش موجود نہیں، آپ اگر انھیں یہاں لے آئے تو نیا قانونی بحران پیدا ہو جائے گا، آپ ان کے بارے میں خود فیصلہ کریں چناں چہ سیکیورٹی ادارے ان لوگوں کو اپنے پاس رکھ کر عدلیہ اور حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

یہ بھی بتایا گیا سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے سرکاری اعدادوشمار میں جعل سازی (فورجری) کی تھی، سابق حکومت بینکوں سے قرضے لے کر 5 اعشاریہ 8 فیصد گروتھ دکھاتی رہی، اسحاق ڈار سے جب ایک میٹنگ میں میٹروز کے بارے میں یہ پوچھا گیا” حکومت یہ قرضے اور خسارے کیسے پورے کرے گی؟ “تو انھوں نے دائیں بائیں چہرہ ہلا کر کہا “سر کچھ فیصلے سیاسی ہوتے ہیں ” سابق دور حکومت میں ویسپا کمپنی پاکستان میں اسکوٹر سازی کا کارخانہ لگانا چاہتی تھی لیکن وزارت خزانہ نے کمپنی سے کمیشن مانگ لیا۔

افغانستان میں نیٹو کے نمائندے اسٹیفنو پونٹے کاروو (Stefano Pontecorvo)نے الزام لگایا یہ رقم وزیر خزانہ نے مانگی تھی، یہ اطلاع وزیراعظم میاں نواز شریف کو دی گئی لیکن انھوں نے اسے سیریس نہیں لیا، یہ بھی بتایاگیا بھارت کے زعماء نے مذاکرات کے دوران پاکستانی افسروں سے درخواست کی، آپ ہماری کلبھوشن یادیو سے جان چھڑا دیں، یہ ہمارے لیے بوجھ ہے، آپ اگر یہ بوجھ ہٹا دیں گے تو یہ آپ کا احسان ہو گا لیکن کلبھوشن یادیو کی موت پاکستان کو سوٹ نہیں کرتی لہٰذا یہ زندہ ہے اور یہ زندہ رہے گا۔

ایم این اے محسن داوڑ کے بارے میں بتایا گیا، یہ آرمی پبلک اسکول کا طالب علم رہا اور یہ ایک اڈے کی وجہ سے ریاست سے ناراض ہو گیا، یہ نظریاتی لڑائی نہیں لڑ رہا، اڈے پر قبضے کی لڑائی لڑ رہا ہے، ایاز صادق نے 29 اکتوبر 2020کو ٹانگیں کانپنے کا بیان دیا تھا، فوجی حلقوں نے اسے بہت برا محسوس کیا تھا، فوج نے انڈیا کے تین طیارے گرائے تھے، اگر ہماری ٹانگیں کانپتی تو ہم کبھی یہ نہ کرتے لیکن پاکستان نے پوری جرات کے ساتھ یہ کیا۔

ہم نے جب بھارت کے پائلٹ ابھی نندن کو رہا کیا تو بھارت نے ایک دوست ملک کے ذریعے پاکستان کا شکریہ ادا کیا لیکن ایاز صادق نے یہ بیان دے کر فوج کا مورال اور دل دونوں توڑ دیے، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو زندگی میں پہلی بار شدید غصہ آیا لیکن یہ اپنا غصہ پی گئے، تحریک لبیک پاکستان کے بارے میں بات ہوئی، یہ میاں نواز شریف نے علامہ طاہر القادری کا زور توڑنے کے لیے بنوائی تھی، ٹی ایل پی نے نومبر 2017 میں فیض آباد میں دھرنا دے دیا، یہ وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کے اشارے پر اسلام آباد آئے تھے۔

ٹی ایل پی شروع میں حکومت سے استعفیٰ مانگ رہی تھی، یہ پھر پوری کابینہ کے استعفے پر آ گئی، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے فوج سے کہا، آپ ان کے ساتھ ڈیل کریں، پولیس ان پر ہاتھ نہیں ڈال رہی، فوجی قیادت نے وزیراعظم کو بتایا آپ نے ماڈل ٹاؤن کے ایشو پر پنجاب پولیس کو اکیلا چھوڑ کر پولیس کو ڈی مورلائز کر دیا تھا لہٰذا یہ اب حکومت کا حکم نہیں مان رہی، وزیراعظم کو مشورہ دیا گیا آپ وزراء کے استعفے نہ دیں کیوں کہ اگر ایک بار یہ روایت پڑ گئی تو پھر یہ روکی نہیں جا سکے گی۔

اسٹیبلشمنٹ کو اس مسئلے میں اس لیے انوالو ہونا پڑا کہ وزیراعظم اور آرمی چیف نے فوجی مشقوں کے سلسلے میں سعودی عرب کا دورہ کرنا تھااور یہ ایشو اس دورے سے پہلے حل ہونا ضروری تھا ورنہ ملک کی جگ ہنسائی ہوتی چناں چہ ٹی ایل پی کے ساتھ تحریری معاہدہ کرنا پڑ گیا، شاہد خاقان عباسی امریکا میں اپنی ہمشیرہ کی عیادت کے لیے جانا چاہتے تھے، سابق وزیراعظم نے اپنا نام ای سی ایل سے نکلوانے کے لیے ملک کی اعلیٰ انٹیلی جنس ایجنسی سے رابطہ کیا اور اسٹیبلشمنٹ نے انھیں امریکا جانے کی اجازت لے کر دی، یہ حکومت سے درخواست نہیں کرنا چاہتے تھے۔

حکومت نے تینوں وزراء خزانہ اپنی مرضی سے لگائے اور انھیں فارغ کیا، اسٹیبلشمنٹ نے کوئی رائے نہیں دی، لاہور ہائی کورٹ کے 46 ججوں میں سے 35 میاں نواز شریف کے دور میں بھرتی ہوئے لہٰذا حکومتی ارکان اور اپوزیشن اس وجہ سے عدلیہ پر جانب داری کا الزام لگاتی ہے۔

عدلیہ پر یہ الزامات نہیں لگنے چاہییں، پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کو پتا چلا وزیراعظم آفس اور وزارت خارجہ کی اہم دستاویزات لیک ہو رہی ہیں، سیکیورٹی اداروں نے تحقیقات کیں، یہ بات درست نکلی، وزیراعظم آفس اور وزارت خارجہ کا سسٹم “ہیک” ہو چکا تھا، میٹنگز کے منٹس تک ملک سے باہر جا رہے تھے، یہ بھی پتا چلا ہماری معلومات بھارت بھی جا رہی ہیں، سیکیورٹی اداروں نے یہ سسٹم ٹھیک کیا اور یہ اب “فول پروف” ہو چکا ہے۔

ہم نے جب بھارت کے پائلٹ ابھی نندن کو رہا کیا تو بھارت نے ایک دوست ملک کے ذریعے پاکستان کا شکریہ ادا کیا لیکن ایاز صادق نے یہ بیان دے کر فوج کا مورال اور دل دونوں توڑ دیے، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو زندگی میں پہلی بار شدید غصہ آیا لیکن یہ اپنا غصہ پی گئے، تحریک لبیک پاکستان کے بارے میں بات ہوئی، یہ میاں نواز شریف نے علامہ طاہر القادری کا زور توڑنے کے لیے بنوائی تھی، ٹی ایل پی نے نومبر 2017 میں فیض آباد میں دھرنا دے دیا، یہ وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کے اشارے پر اسلام آباد آئے تھے۔

ٹی ایل پی شروع میں حکومت سے استعفیٰ مانگ رہی تھی، یہ پھر پوری کابینہ کے استعفے پر آ گئی، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے فوج سے کہا، آپ ان کے ساتھ ڈیل کریں، پولیس ان پر ہاتھ نہیں ڈال رہی، فوجی قیادت نے وزیراعظم کو بتایا آپ نے ماڈل ٹاؤن کے ایشو پر پنجاب پولیس کو اکیلا چھوڑ کر پولیس کو ڈی مورلائز کر دیا تھا لہٰذا یہ اب حکومت کا حکم نہیں مان رہی، وزیراعظم کو مشورہ دیا گیا آپ وزراء کے استعفے نہ دیں کیوں کہ اگر ایک بار یہ روایت پڑ گئی تو پھر یہ روکی نہیں جا سکے گی۔

اسٹیبلشمنٹ کو اس مسئلے میں اس لیے انوالو ہونا پڑا کہ وزیراعظم اور آرمی چیف نے فوجی مشقوں کے سلسلے میں سعودی عرب کا دورہ کرنا تھااور یہ ایشو اس دورے سے پہلے حل ہونا ضروری تھا ورنہ ملک کی جگ ہنسائی ہوتی چناں چہ ٹی ایل پی کے ساتھ تحریری معاہدہ کرنا پڑ گیا، شاہد خاقان عباسی امریکا میں اپنی ہمشیرہ کی عیادت کے لیے جانا چاہتے تھے، سابق وزیراعظم نے اپنا نام ای سی ایل سے نکلوانے کے لیے ملک کی اعلیٰ انٹیلی جنس ایجنسی سے رابطہ کیا اور اسٹیبلشمنٹ نے انھیں امریکا جانے کی اجازت لے کر دی، یہ حکومت سے درخواست نہیں کرنا چاہتے تھے۔

حکومت نے تینوں وزراء خزانہ اپنی مرضی سے لگائے اور انھیں فارغ کیا، اسٹیبلشمنٹ نے کوئی رائے نہیں دی، لاہور ہائی کورٹ کے 46 ججوں میں سے 35 میاں نواز شریف کے دور میں بھرتی ہوئے لہٰذا حکومتی ارکان اور اپوزیشن اس وجہ سے عدلیہ پر جانب داری کا الزام لگاتی ہے۔

عدلیہ پر یہ الزامات نہیں لگنے چاہییں، پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کو پتا چلا وزیراعظم آفس اور وزارت خارجہ کی اہم دستاویزات لیک ہو رہی ہیں، سیکیورٹی اداروں نے تحقیقات کیں، یہ بات درست نکلی، وزیراعظم آفس اور وزارت خارجہ کا سسٹم “ہیک” ہو چکا تھا، میٹنگز کے منٹس تک ملک سے باہر جا رہے تھے، یہ بھی پتا چلا ہماری معلومات بھارت بھی جا رہی ہیں، سیکیورٹی اداروں نے یہ سسٹم ٹھیک کیا اور یہ اب “فول پروف” ہو چکا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here