“مولوی صاحب ان کا کوئی فائدہ نہیں، یہ فضول ہیں، ان میں تو پکوڑے بھی نہیں تولے جاسکتے” کباڑیے نے کتابیں سائیڈ پر رکھ دیں۔
وہ میری طرف مڑے اور ہنس کر بولے “محمد جاوید تم بتائو میں نے کیا کہا تھا” میں نے مسکرا کر سر ہاں میں ہلادیا، ان کا ہاتھ پکڑا، نیچے جھکا اور ان کے سفید براق ہاتھ پر بوسہ دے دیا، وہ کباڑیے کی طرف مڑے اور کہا “تم ساری فضول کتابیں سائیڈ پر کر دو” اس نے چمک کر کہا “یہ ہوئی نا بات” اور وہ کتابوں کے ڈھیر سے تیزی سے کتابیں چھاٹنے لگا۔
اس نے چمکدار نفیس کاغذ پر چھپی ہوئی تمام کتابیں ایک سائیڈ پر رکھیں، جلد والی پرانی کتابیں دوسری سائیڈ پر رکھیں اور پیپر پیک کی کتابوں اور ڈائجسٹوں کا ڈھیر سامنے لگا لیا اور پھر بولا “مولوی صاحب میں ان کے 80 روپے کلو دوں گا” وہ اس کے بعد چمکدار کاغذوں والی کتابوں کی طرف مڑا اور بولا “یہ ساٹھ روپے کلو ہونگی اور یہ جلد والی ساری کتابیں 25 روپے کلو ہوں گی”۔
حضرت صاحب خاموشی سے دل چسپی کے ساتھ اس کی طرف دیکھتے رہے، میں نے کرسی پر کروٹ بدلی اور اس سے پوچھا “یہ تمام کتابیں ہیں، ان کے ریٹ میں اتنا فرق کیوں ہے” کباڑیہ ہنس کر بولا “جناب یہ کتابیں اخباری کاغذ کی ہیں، یہ ہم سے پکوڑے، سموسے اور لفافے والے خرید لیتے ہیں، ان کی قیمت زیادہ ہوتی ہے، یہ کتابیں چمک دار کاغذوں والی ہیں، ان کے صرف لفافے بن سکتے ہیں اور وہ بھی تعداد میں کم اور ان لفافوں کے خریدار بھی زیادہ نہیں ہوتے اور یہ موٹی جلد والی کتابیں یہ مکمل فضول ہیں، آپ خود بتائیں مجھے ان کی جلدوں کا کیا فائدہ ہو گا؟ دوسرا ان کے کاغذ بھی پرانے اور خستہ ہیں، یہ مجھ سے کون خریدے گا؟ ” وہ خاموش ہو گیا۔
کباڑیے کی بات ختم ہو گئی تو حضرت صاحب نے میری طرف دیکھا اور فرمایا “محمد جاوید آپ اب جلد والی کتابیں اٹھا کر دیکھو، یہ کون کون سی ہیں، میں نے پہلی کتاب اٹھائی، یہ امام غزالیؒ کی تہافت الفلاسفہ تھی اور یہ 1706ء میں ایران کے کسی قدیم پریس پر چھپی تھی اور یہ ہر لحاظ سے نادر اور قیمتی تھی، دوسری کتاب بوعلی سینا کی کتاب الشفاء کا قلمی نسخہ تھا، یہ سونے کے پانی سے تحریر کیا گیا تھا اور تیسری کتاب ابن کثیر کی البدایہ والنہایہ کی تیسری جلد تھی اور یہ بھی لبنان کے کسی کاتب نے ہاتھ سے تحریر کی تھی۔
یہ تمام کتابیں انتہائی قیمتی تھیں اور یہ اگر یورپ میں ہوتیں تو یہ باقاعدہ نیلام کی جاتیں اور لوگ بولی لگا کر یہ خریدتے لیکن میرے سامنے بیٹھا شخص منہ میں پیک سنبھالتے سنبھالتے کہہ رہا تھا یہ میرے لیے فضول ہیں اور میں ان کو 25 روپے کلو میں خریدوں گا جب کہ وہ عام بازاری ڈائجسٹوں کو 80 روپے کلو کے حساب سے خرید رہا تھا، حضرت صاحب نے خادم کو اشارہ کیا۔
اس نے جلد والی تمام کتابیں اٹھا لیں اور پیپر بکس، ڈائجسٹ اور گلیزڈ پیپر میگزین کباڑیے کے حوالے کر دیے اور وہ انھیں اپنے میلے کچیلے سلیپروں میں رکھ کر تولنے لگا، میں حیرت سے یہ منظر دیکھتا رہا، وہ کتابیں سمیٹ کر چلا گیا تو حضرت صاحب نے تمام روپے اپنے خادم کو دے دیے اور فرمایا “یہ ابوبکر کے اکائونٹ میں جمع کرا دیجیے” اور ہاتھ جھاڑ کر میری طرف متوجہ ہو گئے۔
وہ تھوڑی دیر مجھے دیکھتے رہے اور پھر بولے “محمد جاوید (وہ مجھے محمد جاوید کہتے تھے، ان کا کہنا تھا چوہدری کے لفظ سے تکبر کی بو آتی ہے اور یہ میری پرسنیلٹی کے ساتھ سوٹ نہیں کرتا) آپ نے پوچھا تھا ہمارے ملک میں جمہوریت کیوں نہیں چل پاتی؟ میں نے یہ سارا کھیل آپ کو ایک چھوٹا سا نکتہ سمجھانے کے لیے کھیلا تھا، یہ یاد رکھیں آپ کے سامنے اگر کباڑیہ بیٹھا ہو تو پھر آپ کی کتابوں، آپ کے لفظوں کی ویلیو 25 روپے کلو سے زیادہ نہیں ہو سکتی، آپ پھرتول کر بیچے جائیں گے”۔
وہ رکے اور بولے “آپ بتائیں علماء کی نظر میں امام غزالیؒ کی تہافت الفلاسفہ اور ابن کثیر کی البدایہ والنہایہ کی کیا حیثیت ہے؟ اور یہ کتاب” وہ رکے اور بو علی سینا کی کتاب الشفاء اٹھا کر بولے ” یہ سونے میں لکھی ہوئی ہے، دنیا میں ایسی چند کتابیں ہوں گی اور ان کی کیا ویلیو ہے؟ ” میں نے عرض کیا “یہ ذہنوں کو بدلنے والی کتابیں ہیں، امام غزالیؒ نے دنیا میں بجٹ کا تصور دیا تھا، ان کا کہنا تھا فرد ہو، خاندان ہو یا پھر ریاست یہ اس وقت تک ترقی نہیں کرتی جب تک یہ بجٹ نہ بنا لے۔
یہ اپنے وسائل، آمدنی اور اخراجات میں توازن قائم نہ کرلے اور دوسرا امام غزالی ؒ نے علم کو دین اور دنیا دو حصوں میں تقسیم کیا تھا، آپ کو آج دنیا میں جتنی بھی ترقی نظر آتی ہے اس کے پیچھے امام غزالی ؒ کے یہ دو فلسفے ہیں اور یہ کتاب تہافت الفلاسفہ امام غزالی ؒ کا حوالہ ہے، بوعلی سینا میڈیکل سائنس کا بانی تھا، اس کی کتاب الشفاء سونے میں لکھی اور تولی جانی چاہیے اور ابن کثیر اسلامی تاریخ کا بانی تھا، اس نے تاریخ کو باقاعدہ فن کی حیثیت دی، آپ دنیا کی کسی یونیورسٹی کی کوئی بڑی لائبریری دیکھ لیں، وہ ان کتابوں کے بغیر ادھوری سمجھی جائے گی” وہ دل چسپی سے میری بات سنتے رہے۔
میں خاموش ہوا تو وہ بولے “یہ ہوئی نا بات، ہمارے مشاہیر آج بھی یورپ، امریکا اور جاپان میں پاپولر ہیں، کیوں؟ کیوں کہ یہ علم پرور معاشرے ہیں، یہ کتابیں آج بھی وہاں نیلام گھروں میں نیلام ہوں گی لیکن ہم کیوں کہ بے علم اور جاہل ہیں چناں چہ یہ کتابیں یہاں 25 روپے کلو میں بک رہی ہیں اور کباڑیے انھیں فضول بھی کہہ رہے ہیں ” وہ رکے اور بولے “یہ یاد رکھو علم کی قدر علم والے کرتے ہیں، آپ اگر کباڑیوں کے سامنے بیٹھے ہیں تو پھر آپ کی باتیں ہوں، لفظ ہوں، فلسفہ ہو یا تحقیق ہو کوڑیوں کے بھائو بکے گی” وہ رکے اور فرمایا” آپ نے بڑے غلام علی خان کا نام سنا ہو گا، وہ کون تھے؟ ” وہ خاموشی سے میری طرف دیکھنے لگے۔
میں نے عرض کیا “وہ ہندوستان میں موسیقی کے سب سے بڑے استاد تھے” حضرت صاحب مسکرائے اور فرمایا “مجھے اچھی طرح یاد ہے پاکستان بنا تو بڑے غلام علی خان بھی مملکت خداداد میں آ کر بس گئے تھے، یہ کراچی میں رہتے تھے اور ان کا حال یہ تھا ان کا سالہ کسی سیٹھ کا ڈرائیور تھا، سیٹھ نے اسے اپنے گھر میں سرونٹ کوارٹر دے رکھا تھا اور بڑے غلام علی خان اپنے ڈرائیور سالے کے کوارٹر میں رہتے تھے، یہ جلد ہی غربت، بے نامی اور بے سکونی سے تنگ آ کر انڈیا واپس چلے گئے۔
بھارت میں یہ ایک بار گانا گانے کے لیے اسٹیڈیم میں آئے، پہلی بات وہ اسٹیڈیم نکونک بھرا ہوا تھا اور دوسری بات جب استاد اسٹیڈیم میں داخل ہوئے تو انڈیا کے وزیراعظم لال بہادر شاستری ان کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے اور انھوں نے استاد کا ستار اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا” وہ رکے، لمبی سانس لی اور بولے “یہ فرق کیوں تھا؟ یہ اس لیے تھا استاد بڑے غلام علی خان یہاں اس ملک میں کباڑیوں کے بیچ تھے جب کہ وہ انڈیا میں جوہریوں کے پاس پہنچ گئے تھے” وہ رکے اور پھر بولے “دنیا کے سب سے بڑے ہیرے کا نام کیا ہے؟ “میں نے عرض کیا “کوہ نور” وہ مسکرائے اور بولے “یس یو آر رائیٹ لیکن آپ جانتے ہیں یہ ہیرا کہاں سے نکلا تھا اور اس کے ساتھ کیا ہواتھا؟ “۔
میں نے عرض کیا یہ شاید گول کھنڈ کی کانوں سے نکلا تھا” وہ ہاں میں سر ہلا کر بولے “یہ سب سے پہلے خانہ بدوشوں کے ہاتھ لگا تھا اور یہ ان کے لیے ایک رنگین پتھر سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا تھا لہٰذا نہوں نے اسے گدھے کے گلے میں لٹکا دیا، کسی تاجر نے دیکھا تو اس نے کوہ نور جوتوں کے ایک جوڑے کے بدلے میں خرید لیا اور خانہ بدوشوں نے یہ خوشی خوشی اس کے حوالے کر دیا مگر یہ جب شاہی خاندان کے پاس پہنچا تو یہ بادشاہوں کے تاج کا حصہ بن گیا، یہ آج بھی ملکہ برطانیہ کے تاج میں لگا ہے، آپ اس اسے کباڑی اور شاہی سوچ کا فرق دیکھ لیں “۔
وہ رکے اور لمبی سانس لے کر فرمایا “ہمارا معاشرہ بدقسمتی سے کباڑیوں کا معاشرہ ہے لہٰذا فکر ہو، سوچ ہو، علم ہو یا پھر سسٹم ہو ہماری نظر میں ان کی ویلیو 25 روپے کلو سے زیادہ نہیں اور جمہوریت کوہ نور سے بھی قیمتی اور ابن کثیر، بو علی سینا اور امام غزالی ؒ کی فکر سے بھی اعلیٰ اور نازک چیز ہے، ہم کباڑیے اس کی قدر، اس کی قیمت سے کیسے واقف ہو سکتے ہیں چناں چہ ہم جب بھی اسے دیکھتے ہیں ہم اس کابھائو 25 روپے کلو لگا دیتے ہیں۔
ہمیں اگرجمہوریت کی قدر ہوتی تو سیاسی جماعتوں سے لے کر عوام تک اسے سونے میں تولتے، ہم کوہ نور کی طرح اس کی حفاظت کرتے اور امام غزالیؒ کی کتابوں کی طرح اسے چومتے، دل سے لگا کر رکھتے لیکن ہم کیوں کہ کباڑیے ہیں چناں چہ پارٹیوں سے لے کر ملک تک ہمیں کسی جگہ جمہوریت نظر نہیں آتی اور آپ یہ بھی یاد رکھیں یہ ہمیں اس وقت تک نظر بھی نہیں آئے گی جب تک ہم خود کو اس کے قابل نہیں بناتے، موسیقی ہو، علم ہو، کوہ نور جیسے ہیرے ہوں یا پھر جمہوریت ہو یہ کبھی کباڑیوں کے ظرف میں نہیں سماتی، قوموں کو خود کو پہلے ان کے قابل بنانا پڑتا ہے اور ہم ابھی قابلیت اوراہلیت سے کوسوں دور ہیں، ہم ابھی جمہوریت کی جیم تک بھی نہیں پہنچے”۔