آزادکشمیر کے انتخابات – سردار محمد طاہر تبسم

0
330
dialogue by sardar tahir tabassum

آزاد کشمیر میں ہونے والے انتخابات میں پاکستانی سیاسی جماعتوں کے قائدین کی نفرت، تعصب اور معاندانہ رویوں نے ایسا زھر گھولا ہے کہ تیتر اور بٹیر کی تمیز مشکل ہو گئی ہے۔ سیاسی منافرت اور بد زبانی کا ایسا ماحول پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ پاکستانی سیاسی جماعتیں اپنے مسائل حل کر نہیں سکتی اور آزادکشمیر میں آ کے ڈرامے بازی کر رہی ہیں۔
نزعی مسئلہ کشمیر کی کسی کو کوئی فکر نہیں ہے اور محض دل کی بھڑاس ہمارے الیکشن میں نکال رہیے ہیں ایسے لگتا ہے کہ سیاست نابالغوں کے ہتھے چڑھ گئی ہے قومی معاملات میں اتنی غیر سنجیدگی قوم کے لئے لمحہ فکر ہے۔ کاش ہمارے لیڈروں میں عقل و شعور ُ آگہی اور احساس پیدا ہو جائے۔
کیا ہماری سیاست بانجھ ہو چکی ہے ؟
خدارا ان لیڈروں کی تربیت کا اہتمام کریں انہیں قومی اور ذاتی معاملات میں فرق بتائیں۔ لگتا ہے ہر جماعت کی سربراہی کی کرسی پر انتہائی غیر ذمہ دار اور کج ذہن لوگ براجمان ہیں۔ جن کے سارے مقاصد ذاتی مفادات کے گرد گھوم رہے ہیں۔
تحریک آزادی کے بیس کیمپ آزاد کشمیر کے انتخابات میں مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ یک جہتی اور حریت قیادت کی آواز کے ساتھ آواز ملانے کی بات ہونی چاہیے بھارت کے ظلم و جبر، قتل عام اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی مذمت ہونی چاہئے تھی اور مسلح افواج کے کردار کو سراہا جانا ضروری ہے جن کی وجہ سے ہماری عزت آبرو اور وقار قائم ہےلیکن یہ سب باتیں کسی لیڈر کو شائد یاد ہی نہیں انہیں اپنے اقتدار اور طاقت کی فکر ہے اور جس ملک نے انہیں یہ ساری توفیقات دی ہیں اس کی قطعی پرواہ نہیں ہے۔
بھلا ہو مسلح افواج کا جس نے الیکشن کی نگرانی کی حامی بھری ہے ورنہ ہماری قومی قیادت نے الیکشن کو خون ریزی سے آلودہ کر دینا تھا۔
آزاد کشمیر کے لیڈر بھی کچھ کم نہیں ہیں راجہ فاروق حیدر نے اپنے حلقے میں وفاقی وزراُ پر حملہ کروا کرالیکشن سے پہلے ہی یہ واویلہ شروع کر دیا ہے کہ اگر الیکشن میں مداخلت کی گئی تو وہ دھرنا دینگے۔ ایک حملہ مجھ پہ بھی موصوف نے اپنے بدمعاش ملازمین سےکرایا تھا لیکن میں نے انہین معاف کر دیا تھا۔ لگتا ہے انہیں اپنی پارٹی کی شکست ابھی سےنظر آنا شروع ہو گئی ہے۔ ہمارے دیرینہ ساتھی اور دوست شاہ غلام قادر نے راولپنڈی کے حلقے کو وزارت عظمی کے حصول کی خاطر چھوڑا اور وادی نیلم میں آن بسے اس انتخاب کے بعد ایسے لگتا ہے کہ موصوف دوبارہ راولپنڈی کے لئے پر تول رہے ہیں۔
سردار عتیق احمد خان کے داماد اکبر اور ہمارے عزیز دوست سردار عابد رزاق نے پی ٹی آئی کے امیدوار کے حق میں دستبرداری ہی میں عافیت سمجھ کر الیکشن چھوڑ دیا۔خود سردار عتیق نے اپنے سگےبھائی سردار خلیق احمد خان مرحوم کے بیٹوں اور فیملی پر حلقے میں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے حالانکہ ان کی موجودگی میں انہیں بڑاسیاسی فائدہ ہو سکتا تھا کیونکہ سردار خلیق کا حلقہ رسوخ بہت زیادہ یے وہ ممبر ضلع کونسل اور مشیر حکومت رہے اور ساری زندگی بلا امتیاز لوگوں کی خدمت میں گزاری میں ذاتی طور پر انکا بیحد معترف ہوں لیکن چونکہ سردار عتیق بڑے لیڈر اور ریاستی جماعت و تشخص، رواداری اور روایات کی پاسداری کے امین ہیں اس لئے انہیں سردار خلیق کے بیٹوں کی موجودگی گوارہ نہیں ہےلیکن کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے ؟ موصوف پہلے میجر لطیف خلیق کے مقابلے میں چند سو ووٹوں سے جیت جاتے رہے ہیں اس بار دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے تاہم اتنے سمجھدار لیڈر کے لئے یہ الیکشن آسان نہیں ہو گا۔
بیرسٹر سلطان محمود کا مقابلہ بھی سخت ہے انکے حریف چوہدری محمد سعید انہیں قبل ازیں پچھاڑ چکے ہیں تاہم مقابلہ خاصا ٹف ہے۔
حیرت ان دوستوں پر ہے جو جماعت اسلامی کے رہنما عبدالرشید ترابی کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں انہیں جو بات اپنے علاقےکے لئے بہتر لگی وہی فیصلہ کیا ہو گاالبتہ لین دین کا معاملہ ضرور قابل غور ہے ویسے بھی وہ اسلام اور جماعت کے ساتھ ساتھ برادری، قبیلے اور مفادات کا ہمیشہ خیال رکھتے آئے ہیں۔ تاہم انکے اس عمل سے نئی قیادت سردار تنویر الیاس کی کامیابی یقینی ہو چکی ہے۔ جو خوش آئند پہلو ہے۔
سنیر پارلیمنٹیرین سردار یعقوب خان، چوہدری یسین، چوہدری طارق فاروق، افتخار گیلانی، چوہدری محمد عزیز، یسین گلشن، مشتاق منہاس، سردار قمر الزماں، شاہ غلام قادر، میاں عبدالوحید، سید مرتضی گیلانی، سردار فاروق سکندر، راجہ نصیر احمد ُ مہرالنساُ، نورین عارف،چوہدری اسماعیل گجر،شوکت علی شاہ کا مقابلہ خاصاپچیدہ اور سخت ہے دیکھتے ہیں 25 جولائی کا دن کیا تبدیلی لاتا ہے۔ ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ کئی بڑے برج الٹ پلٹ جائیں گے اور نئے جذبے سے سرشار نئی قیادت نمودار ہو گی جو برادری ازم، ذاتی مفادات، حرص اور خود غرضی کی بیماریوں سے پاک ہو گی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here