” جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو پھانسی دینے سے قبل تمام کورز کے افسروں سے رائے لینا شروع کی، میں اس وقت میجر جنرل تھا، میرے کور کمانڈر نے بھی افسروں کو جمع کر لیا، سب نے کہا، ہم بھٹو کی پھانسی کے بعد حالات کنٹرول کر لیں گے۔
لیکن میں نے عرض کیا “بھٹو کو پھانسی دینا بہت ہی غلط فیصلہ ہوگا، اس سے ایسی سیاسی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی جنھیں سنبھالنا مشکل ہو گا، بہتر ہوگا بھٹو کو جلاوطن کر دیا جائے، فلسطین کے یاسرعرفات، سعودی عرب کے شاہ فیصل، لیبیا کے کرنل قذافی اور متحدہ عرب امارات کے حکمران ذمے داری لینے کے لیے تیار ہیں۔
بھٹو ایک اچھے اسٹیٹس مین ہیں، بڑی جماعت کے مقبول لیڈر ہیں، ہمیں کل ان کی ضرورت پڑے گی” یہ انکشاف بھی جنرل اسلم بیگ نے اپنی بائیو گرافی “اقتدار کی مجبوریاں ” میں کیا، ان کے بقول “میری باتوں پر کور کمانڈر ناراض ہو گئے، کانفرنس ختم کر دی اور اپنے چیف آف اسٹاف بریگیڈیئر حمید گل کو بلایا اور حکم دیا “مجھے فوراً چیف سے ملاؤ، میں ایسے آفیسر کو اپنی فارمیشن میں نہیں رکھ سکتا” بریگیڈیئر حمید گل نے کہا” سر اگر اجازت ہو تومیں رپورٹ تیار کر لیتا ہوں، ہم یہ چیف کو بھجوا دیتے ہیں۔
وہ خود فیصلہ کر لیں، ہماری طرف سے فوراً ردعمل مناسب نہیں ہو گا” کور کمانڈر نے یہ بات مان لی اور چیف کو رپورٹ بھجوا دی، جنرل ضیاء الحق نپولین جیسی فہم وفراست کے مالک تھے، وہ تنقید کرنے والوں کو اپنے ساتھ رکھتے تھے لہٰذا انھوں نے مجھے سزا دینے کی بجائے جی ایچ کیو میں چیف آف جنرل اسٹاف تعینات کر دیا، میں نے حق اور اصول کی بنیاد پر بھٹو کو پھانسی دینے کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا، اگر بھٹو کو پھانسی نہ دی جاتی تو سیاسی ابتری نہ ہوتی، جنرل ضیاء کا حادثہ ہوتا، نہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت آتی اور نہ بے نظیر بھٹو قتل ہوتی۔
جنرل اسلم بیگ نے انکشاف کیا، ایران عراق جنگ کے دوران ایران نے ہم سے جنگی ہتھیاروں کے اسپیئر پارٹس مانگے تھے، ہم نے غور کا وعدہ بھی کیا، ایرانی صدر علی اکبر رفسنجانی اسپیئر پارٹس کے لیے خود بھی پاکستان آئے، جنرل ضیاء الحق نے انھیں مغرب کے وقت جماعت کرانے کی دعوت دی اور صدر رفسنجانی نے ہماری طرح نماز پڑھائی، ہم نے ایران سے اسپیئرپارٹس کا وعدہ کیا تھا لیکن ہم نے اس وعدے کی پاس داری نہیں کی، جنرل صاحب نے انکشاف کیا۔
پاکستان کو ایران عراق جنگ سے دور رکھنے کے لیے سازش کے تحت ملک میں فرقہ وارانہ فسادات بھی کرائے گئے اور سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اور سپاہ محمد جیسی جنگجو تنظیمیں بنانے کی اجازت بھی دی گئی، ہم نے جنگ کے بعد ان تنظیموں کو دہشت گرد قرار دے کراپنے سروں پر دہشت گردی کی تلوار لٹکا لی، جنرل صاحب نے انکشاف کیا، جنرل ضیاء الحق نے 1985 میں نیا سیاسی نظام لانے کا ارادہ کیا، مارشل لاء کو 9 سال ہو چکے تھے، مجھے اور حمید گل کو تجزیے کی ذمے داری سونپی گئی۔
میں نے اپنی سفارشات میں کہا “اب وقت آ گیا ہے صاف ستھرے الیکشن کرا کے اقتدار منتخب عوامی نمائندوں کو منتقل کر دیا جائے، اس عمل سے قوم آپ کو اچھے الفاظ میں یاد رکھے گی” وہ کچھ دیر سوچتے رہے اور پھر بولے “چاہتے ہو کہ پھانسی کا پھندا میرے گلے میں ہو” میں نے کچھ معروضات پیش کرنا چاہیں لیکن اجازت نہ ملی، ہم خاموش ہو گئے۔
جنرل اسلم بیگ نے جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے کے بارے میں بڑی تفصیل سے لکھا، جنرل صاحب نے انکشاف کیا، جنرل ضیاء الحق اور دوسرے سینئر آفیسرز 17 اگست 1988 کو الخالد ٹینک کا ٹرائل دیکھنے خیرپور ٹامیوالی کی فائرنگ رینج میں آئے، عسکری قیادت نے اسلام آباد سے بہاولپور آنا تھا، ہم نے ان کے لیے دو گروپ بنائے تھے، پہلے گروپ میں جنرل ضیاء الحق شامل تھے جب کہ دوسرے گروپ میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل اختر عبدالرحمن تھے۔
16 اگست کو جنرل اختر عبدالرحمن مجھے گالف کورس میں ملے اور شکایت کی تم نے مجھے پہلے گروپ میں کیوں نہیں رکھا، میں نے کہا “اصول کے تحت سینئر افسر ایک جہاز میں سفر نہیں کرتے” وہ خاموش ہو گئے، اگلے دن جنرل ضیاء الحق بہاولپور پہنچے تو جنرل اختر عبدالرحمن بھی صدر کے ساتھ تھے، انھوں نے ملٹری سیکریٹری کے ذریعے اپنا نام صدر کے گروپ میں شامل کرا لیا تھا اور یوں وہ بھی 17 اگست کو جنرل ضیاء الحق کے طیارے میں شہید ہو گئے۔
جنرل اسلم بیگ نے انکشاف کیا، میں حادثے سے قبل جب بہاولپور ائیرپورٹ پر جنرل ضیاء کو رخصت کرنے لگا تو جنرل ضیاء نے مجھ سے پوچھا “آپ بھی آ رہے ہیں؟ مگر آپ کا تو اپنا جہاز ہے” میں نے کہا “جی ہاں میں اپنے جہاز میں آؤں گا، اللہ حافظ” ان کا جہاز ٹیک آف کر گیا اوردس منٹ بعد میرے پائلٹ کرنل منہاج نے پریشانی کے عالم میں بتایا “سر اسلام آباد کنٹرول کا پاکستان ون سے رابطہ نہیں ہو رہا، میں بھی کوشش کر رہا ہوں لیکن کوئی ریسپانس نہیں ہے” جنرل اسلم بیگ نے انکشاف کیا، میں نے 1988 کے الیکشن کے بعد بے نظیر بھٹو کو اپنے گھر پر دعوت دی اور مستقبل کی وزیراعظم سے تین درخواستیں کیں، فوج سے کوئی شکایت ہو تو مجھے بتائیے گا، میں دیکھ لوں گا، یہ میری ذمے داری ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے لیے آپ کا دل سخت ہے لیکن آپ ان کے اہل خانہ کے لیے نرمی کی گنجائش رکھیے گا اور جب صدر بنانے کا وقت آئے تو غلام اسحاق خان کا نام بھی سامنے رکھیے گا، محترمہ نے ان تینوں باتوں کا احترام کیا، محترمہ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے ملٹری سیکریٹری میجر جنرل امتیاز کو میرے پاس بھجوایا اور پوچھا “موجودہ سینئر آفیسرز میں جنرل ضیاء کے قریب اور بااعتماد آفیسر کون کون تھے؟ ” میں نے جنرل امتیاز کو جواب دیا “محترمہ کو اگر نام چاہییں تو میں صرف ایک نام دے سکتا ہوں، وہ جنرل ضیاء کے بہت ہی قریب اور بااعتماد سمجھے جاتے تھے اور وہ ہیں جنرل اسلم بیگ”۔
جنرل اسلم بیگ نے الطاف حسین کے بارے میں بھی ایک دل چسپ واقعہ بیان کیا، ان کا کہنا تھا مجھے پیغام ملا ایم کیو ایم کے قائد میرے گھر میں مجھ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں، میں نے بلا لیا، وہ آئے اور ہم ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ گئے، کھانا کھاتے ہوئے الطاف حسین نے میری بیگم سے پوچھا “بیگم صاحبہ آپ نے کون کون سی ڈش بنائی ہے، میں جہاں جاتا ہوں بیگمات اپنے ہاتھ سے طرح طرح کی ڈشیں تیار کرتی ہیں ” میری بیگم نے تڑاخ سے جواب دیا”میں تو جنرل صاحب کے لیے کوئی ڈش نہیں بناتی آپ کو یہ کیسے گمان ہو گیا میں آپ کے لیے بناؤں گی” الطاف حسین لقمہ منہ میں ڈال رہے تھے۔
ان کا ہاتھ رک گیا، پانی پیا اور جانے کی اجازت چاہی، جنرل صاحب نے انکشاف کیا، گلف وار کے دوران امریکا نے مشورہ دیا سعودی عرب میں موجود 15 ہزار پاکستانی فوجیوں کو سعودی کمانڈ میں دے دیا جائے، اس کے عوض پاکستان کو بھاری مالی امداد کا وعدہ کیا گیا، میاں نواز شریف وزیراعظم تھے، یہ تیار نظر آئے، میں نے وزیراعظم کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا لیکن وہ مجھ سے متفق نہ ہوئے، میں نے میڈیا کو بتا دیا “ہماری فوج کرائے کی فوج نہیں، خطرہ سعودی عرب کو نہیں بلکہ صدام حسین کو ہے۔
امریکا صدام کو کھلے میدانوں میں لا کر تباہ کرنا چاہتا ہے” میرے اس بیان پر میاں نواز شریف اور امریکا دونوں مجھ سے ناراض ہو گئے، جنرل اسلم بیگ نے دعویٰ کیا، رحمن ملک نے جنرل اسد درانی کو اصغر خان کیس میں میرے خلاف گواہی دینے کے لیے راضی کیا تھا، یہ اسد درانی سے ملاقات کے لیے جرمنی گئے تھے اور ان سے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے نام تحریری خط لکھوایا تھا، جنرل پرویز مشرف نے 2001میں افغانستان کے ایشو پر امریکا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو اس نے مشورے کے لیے مجھے بھی بلایا، میں تین گھنٹے ان کی منطق سنتا رہا، تنگ آ گیاتو ان سے کہا “آپ نے جوفیصلہ کیا وہ بدترین ہے۔
اس فیصلے کے نتائج پاکستان کی سلامتی کے لیے مہلک ثابت ہوں گے، ایک برادر اسلامی ملک کے خلاف غیروں کے ساتھ مل کر جنگ میں شامل ہو جانا بے غیرتی ہے، آپ کا یہ فیصلہ ان ہزاروں شہیدوں کے خون پر سمجھوتہ ہو گا جنھوں نے افغانستان کی آزادی کے لیے جانیں دیں، جو شخص شہیدوں کے خون پر سمجھوتہ کرتا ہے اللہ اسے معاف نہیں کرتا” جنرل اسلم بیگ نے انکشاف کیا، جنرل ضیاء الحق نے 1987میں ڈاکٹر عبدالقدیر سے ایٹمی پروگرام پر اس سال کے اخراجات کی تفصیل مانگی، ہمیں ایک ماہ میں تفصیل مل گئی۔
ہم یہ جان کر حیران رہ گئے ہمارے ایٹمی پروگرام پر دس سال میں کل اخراجات 300 ملین ڈالر تھے اور یہ رقم فرانس سے خریدی گئی ایک سب میرین کی قیمت سے بھی کم تھی اور جنرل صاحب نے انکشاف کیا، پاکستان کوایٹمی قوت بنانے والی پانچ اہم شخصیات کو زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا یا پھر اقتدار سے جبری علیحدہ ہونا پڑا یا پھر غلط پروپیگنڈے کے ذریعے ان کی کردار کشی کی گئی اور وہ پانچ لوگ ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف اور ڈاکٹر عبدالقدیر ہیں۔
جنرل اسلم بیگ نے اپنی کتاب کا نام اقتدار کی مجبوریاں کیوں رکھا اس کے بارے میں انھوں نے لکھا، جنرل ضیاء الحق نے 1988 میں محمد خان جونیجو کی حکومت ختم کی تو ان کے ذہن میں ایک بار پھر ایک نئے سیاسی نظام کا تصور ابھرا، انھوں نے مجھے اور حمید گل کودوبارہ رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت کی، میں نے رپورٹ بنا کر کہا “الیکشن کرایے اور اقتدار سے الگ ہو جایے، تاریخ آپ کو ایک مہربان ڈکٹیٹر کے نام سے یاد کرے گی” وہ بولے “آپ نے بہت صحیح کہا لیکن اقتدر کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں ” اوربات ختم ہو گئی۔
جنرل اسلم بیگ کی کتاب اچھی ہے تاہم اس میں بے نظیر بھٹو کے خلاف آئی جے آئی کی تشکیل اور کراچی میں ایم کیو ایم کی پرورش کے بارے میں کوئی انکشاف نہیں کیا گیا شاید یہ جنرل اسلم بیگ کے اقتدار کی مجبوریاں تھیں۔