تماشا – عائشہ تحسین اردو کالم

0
299
ayesha tehseen profile image

یہ سب لکھنا میرے لئے آسان نہیں تھا  لیکن پھر بھی لکھ رہی ہوں   کیوں کہ چپ رہنا بھی مشکل ہے افغانستان میں طالبان کی حکومت آگئی طالبان کو جیت نصیب ہوئی  طالبان نے جہاد کیا 50 ملکوں کی فوجوں کو انہوں نے ہرایا اور اسلام کے نام پر انہوں نے جہاد کیا بنا  اسلحہ اور بے سروسامان ہو کر بھی امریکہ جیسی طاقت کو ہرایا کیونکہ طالبان نے  اسلام کے نام پر جہاد  کیا  اس لیے    اللہ تعالی انہیں فتح نصیب  کی غائب سے اللہ تعالی نے ان کی مدد کی ان جیسے جہادی ہونا فخر کی بات ہے اسلام  پھر  سے زندہ ہوگیا ہر طرف اسلام کی فضا ہوگی ااسلامی اصولوں پر زندگی گزاری جائے گی 2021 میں بھی اسلام غالب آ گیا کیونکہ افغانی طالبان مسلمان تھے اور ان کے سامنے یہودی اور عیسائی تھے  اس لیے  اللہ تعالی نے مسلمانوں کو فتح عطا کی 
اب بھی سوچ رہے ہوں گے کہ میں کیا باتیں لکھ رہے ہو آخر میں کہنا کیا چاہتی ہو اپنے دماغ کی بتی جلا لے  تو آپ کو میری باتیں سمجھ آنے لگی 
ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہیں اور الحمدللہ مسلمان بھی ہیں لیکن ہمیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہمیں اسلامی طریقہ سے زندگی گزارنی ہے کہ نہیں گزارنی لیکن ہمسایہ ملک میں ہم طالبان کی حکومت سے خوش ہو رہے ہیں کیوں کہ وہاں پر اسلام غالب آگیا اسلامی طرز زندگی پر زندگی گزاری جائے گی جو بہت اچھا ہوا امریکہ کو شکست ہوئی اور طالبان حکومت کرنے کو تیار ہیں   . ہمیں ہمسایہ ملک کی تو فکر ہے کہ وہاں پر اسلامی حکومت آگئی اور وہاں پہ اسلامی طریقہ کار رائج ہوں گے لیکن ہمیں اپنے ملک کی کوئی پروا نہیں ہے کیا ہم مسلمان  ہیں کیا ہمارے ملک میں بھی اسلامی طریقہ کار رائج نہیں ہونی چاہیے لیکن اس   بات پے میں نے بہت سے لوگوں کو کہتے سنا کے طالبان کا سسٹم افغانستان کو سوٹ کرتا ہے پاکستان میں یہ سسٹم نہیں چل سکتا مطلب  یہ کہ  پاکستان میں اسلام نہیں چل سکتا نام پر اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے لیکن  یہاں  افغانستان کی طرح اسلامی طرز زندگی پر زندگی نہیں گزاری جا سکتی جب آپ ان کے لحاظ سے زندگی نہیں گزار سکتے تو خوشی کس  بات کی ہو رہی ہے کس بات کا پرچار کر رہے ہیں آپ کو دوسرے ملکوں میں طالبان کی حکومت چاہیے  اسلامی طرز زندگی بھی چاہیئے اور  اپنے ملک میں کچھ بھی نہیں ایسا چاہیے ہم منافقت کہ  درجے سے بھی  نیچے گر گئے  ہیں  یعنی ہمیں سمجھ ہی نہیں ہم کہنا کیا چاہتے ہیں  اور کرنا چاہتے ہیں ہمارے دل میں کفر ہے اور زبانوں پہ اسلام پاکستانیوں کی حالت دیکھ کر ترس آتا ہے پاکستانیوں کا طرز عمل اور سوچ کوفیوں جیسی ہے ان کوفیوں جیسی جس طرف کی  ہوا چلتی ہے ان کے ساتھ ہو جاتے ہیں ان کو حق سچ سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا بس اپنے مفاد کے لیے جس کے مرضی   ساتھ ہو جاتے ہیں کوفیوں نے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھا کہ وہ ان کی بیعت  کرنا چاہتے ہیں آپ کوفہ آجائے لیکن جب امام حسین علیہ السلام کوفہ پہنچے تو کوفیوں نے  ان کا ساتھ نہیں دیا انہوں نے وہاں کی حکومت کا ساتھ دیا یزید کا ساتھ دیا حق سچ کو بھول کر لالچ میں یزید کا ساتھ دیا لالچی منافق بےحس لوگ تھے کوفہ والے یہی حال پاکستانیوں کا ہے جو منافقت کی حد سے گزر چکے ہیں اس لئے مجھے پاکستانیوں کی حالت پر ترس آتا ہے کیوں کہ ان کا عمل بھی کوفیوں جیسا ہے ان کو اسلام سے کچھ لینا دینا نہیں کیوں کہ یہ خود اسلام اور لبرلزم کے بیچ میں پھنسی ہوئی قوم ہیں یہ اوپر تو ٹی شرٹ پہنتے ہیں لیکن نیچے ٹخنوں سے اونچی شلوار پہنتے ہیں جب بات ماڈرنزم کی ہوتی ہے تو یہ دنیا کے سامنے اپنا ٹی شرٹ والا روپ دکھاتے ہیں کیوں کہ کالجوں یونیورسٹیوں میں یہ سسٹم چلتا ہے لیکن جب بات اسلام کی آتی ہے اور بنا سوچے سمجھے ان کو یاد آجائے کہ یہ مسلمان ہیں تو یہ ٹخنوں سے اونچی بندھی ہوئی شلوار دکھا دیتے ہیں کہ مسلمان ہیں اور اسلام کا پرچار کرنا شروع کر دیتے ہیں لیکن ان کو آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی  کہ دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا ٹی شرٹ پہن کر جب یہ لبرل ازم کی باتیں کرتے ہیں لیبرالیزم جس معاشرے کا حصہ ہے وہاں کے لوگ ان کو کم ظرف سمجھ کر یہ سوال کرتے ہیں اسلام میں تو یہ چیز جائز نہیں آپ لوگ کیوں کرتے ہیںتب  ان کے پاس سوائے شرمندگی کے کوئی جواب نہیں ہوتا اور جیسے ان کو اسلام یاد آتا ہےتو یہ ٹخنوں سے اونچی باندھیں شلوار دکھا کر اسلام کی باتیں کیا شروع کر دیتے ہیں جب یہ حق سچ کی باتیں کرنے لگتے ہیں اس وقت بھی ان کو انتہا پسند قرار دے دیا جاتا ہے یعنی یہ کبھی اپنے مذہب پر بھی پورا نہیں اترتے جو معاشرہ اپنی تہذیب کو بھول کر اپنے مذہب کا بول کر منافقت اختیار کرتا ہے وہ نہ دین کا رہتا ہے نہ دنیا کا یہی حال کچھ پاکستانیوں کا ہے انہیں خود نہیں پتا کہ  ان کو کیا  کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا لیکن ان کو یہ ضرور پتہ ہوتا ہے کہ دوسرے ملکوں کو کیا کرنا چاہیے انہی باتوں کی وجہ سے پاکستان اپنا وژن نہیں بنا سکا اپنے اصول عقائد نہیں بنا سکا دین اسلام پہ نہیں چل سکا ہمارے معاشرے میں ہر مذہب کا طرز زندگی نظر آتا ہے بس نظر نہیں آتا تو اسلام کا طرز زندگی نظر نہیں آتا کیوں کہ وہ ہمیں افغانستان میں طالبان کی شکل میں نظر آتا ہے اگر پاکستانیوں کو طالبان کی حکومت ہی پسند ہیں اتنا ہی ان کو جہاد پسند ہے تو ہمارے نارتھن ایریا میں جو ٹرائب موجود ہیں وہ بھی جرگہ  کی مرضی سے ہی چلتے ہیں وہاں بھی پردہ کیا جاتا ہے اور اسلامی طرز زندگی   پر زندگی گزاری جاتی ہیں لیکن پاکستان میں ہم ان لوگوں کو انتہا پسند اور دقیانوسی کہتے ہیں کیونکہ  . ان کا  رہنا سہنا اور سوچ طالبان سے ملتا ہے پاکستان میں لوگ دوسرے ٹرائب  کے لوگوں سے رشتے داری تک نہیں کرتے کیوں کے ایک دوسرے کی سوچ اور رہن سہن میں فرق ہے جس کی وجہ سے آپس میں رشتہ داری نہیں کی  جاتی۔
لیکن کہنے کو سب مسلمان  بھی ہیں  اور  اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے بھی ہیں   پھر بھی یہاں پر جو  اسلام پہ چلتا ہے اسے دقیانوسی اور  انتہا پسند کہتے ہیں لیکن جو افغان میں طالبان ہیں وہ اچھے ہیں اور اسلام پر چلتے ہیں افغانستان میں اسلامی حکومت چاہیے یہ سوچ اور نظریہ ہمارے پاکستانیوں کا جن لوگوں کو یہ نہیں پتا ان کے پیدا ہونے کا مقصد کیا ہے وہ بھی افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خوش ہو رہے ہیں آفرین ہے پاکستانیوں کی سوچ پہ بات کو تھوڑا اور آگے لے کے چلتے ہیں تاکہ آپ کا اور اچھے سے سمجھ آ سکے کہنے کو طالبان اپنے ملک میں شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں اور اپنے ملک سے امریکہ اور روس کو نکالنا چاہتے تھے لیکن حکومت میں آتے ہیں طالبان نے جو بیان جاری کیا اس میں انہوں نے صاف لفظوں میں یوکے یو ایس اے سے سفارتی تعلقات بنانے کی خواہش ظاہر کی یعنی طالبان کو بھی پتہ ہے کہ وہ ان ملکوں کے بغیر نہیں رہ سکتے انہیں اپنے ملک کے  نظام کو چلانے کے لیے دشمنوں کا بھی سہارا چاہیے تو کیا فائدہ اتنی قتل و غارت کا صرف اور صرف اسلام کو مس یوز کیا جا رہا ہے اسلام کے نام پر اپنے مفادات کو پورا کیا جا رہا ہے پاکستان میں رہ کر یہ کہنا آسان ہے کہ افغانستان میں اسلامی حکومت آگئی لیکن کبھی آپ نے افغانستان کے عوام سے پوچھا ہے کہ وہ کیا چاہتی ہے وہ کس حد تک تنگ ہے ان طالبان سے اپنے ملک میں ہونے والی خانہ جنگی سے اس بات کو کوئی نہیں سوچتا کیونکہ حقیقت تو کوئی سنتا ہی نہیں چاہتا امریکا نے جب افغانستان کو چھوڑا آپ کو کیا لگتا ہے کہ امریکہ نے خالی ہاتھ جانا یہاں سے بہتر سمجھا نہیں امریکا جیسا سوپر  پاور ملک کچی گولیاں کبھی نہیں کھیلتا امریکہ ہمیشہ سے اشرف غنی کا استعفی  چاہتا تھا جب وہ  اشرف غنی  سے استعفیٰ نہیں لے سکا اور اسے ہر طرف اپنی ہار نظر آنے لگی  تب اس نے طالبان کو اپنامورا  بنا کر اشرف غنی کے خلاف استعمال کیا اور طالبان کو دو دن میں پورے افغانستان پر قابض کر دیا بات اتنی سیدھی بھی نہیں جتنی نظر آتی ہے امریکہ کبھی چاہتا ہی نہیں افغانستان چھوڑنا وہ چاہتا ہے یہ علاقہ ہمیشہ سے متنازعہ رہے اور یہاں کبھی امن و امان  قائم نہ ہو اسی لیے اس نے طالبان کو اپنا سہارا بنایا اور انہیں اسلحہ فراہم کیا اور جمہوری ختم کر کے طالبان کے نام پر اسلامی حکومت افغانستان میں رائج کر دی اس  بات سے امریکہ کو ہمیشہ فائدہ رہے گا کیونکہ وہاں پر موجود طالبان کے گروپ کو کبھی بھی آپس میں لڑ سکتا ہے اور اپنے مقصد کے لئے استعمال کر سکتا ہے جیسے ہی اس سے کوئی طالبان کا  کام یا   کاروائی پسند نہیں آئے گی ان طالبان کو دہشت گرد کا نام دیکھ کر دوبارہ سے ان پر حملہ آور ہوگا لیکن اس بات کا امکان بھی کم ہے کیونکہ امریکہ پیچھے رہ کے طالبان کو آگے کر کے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے اور یہ مذہب کے علمبردار انسانیت تباہ کرنے والے پیسے کے لالچ میں امریکہ کی کٹھ پتلیاں ضرور بنے گے اسلام سب کے لیے برابر ہے سب کے لئے قرآن پاک جامع اور مکمل کتاب ہے لیکن جب اسلام کے نام پر بننے والی  اسلامی حکومت کے ہوتے ہوئے   ایک عقیدے کے لوگ دوسرےعقیدے  کے لوگوں کو کافر کہنے لگے اور مذہبی انتشار شروع ہو جائے تو میں اسے کبھی بھی اسلامی حکومت نہیں کہوں گی کیونکہ اسلام برابری کا درس دیتا ہے سب مسلمان ہیں اور آل محمد کو ماننے والے ہیں سب برابر ہیں کسی کو کسی پر برتری حاصل نہیں ہے یہی ہمارا مذہب ہے یہی اسلام ہے یہی دین کا طرز زندگی ہے لیکن ہم اپنے مذہب کو بھول کر ڈھونگ رچانے والے مذہب کے علمبرداروں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں وہ ہمیں اسلام سکھائیں اسلام پر زندگی گزارنے کے لئے ہمیں طالبان کی ضرورت ہے ہمارے معاشرے کے لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام پر چلنے کے لئے میں طالبان کی ضرورت ہے وہ ناقص العقل لوگ یہ نہیں سمجھتے اسلام پر چلنے کے لئے ہمیں پرامن ملک کی ضرورت ہے اسلام پر زندگی گزارنے کے لئے قرآن پاک کی ضرورت ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرز زندگی پر چلنے کی ضرورت ہے ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جو ہر انسان کے لئے آسان ہے لیکن ہمیں یہ چھوٹی سی بات سمجھ نہیں آتی کہ آج تک کسی نے بھی اسلام پر زندگی گزارنے کا سوچا نہیں ہے ہاں  اپنے مفادات کو پورا کرنے کے لئے اسلام کا نام استعمال ضرور کیا ہے جب تک ہم خود کو نہیں جانتے اپنے دین کو نہیں سمجھتے  اس پر عمل پیرا کیسے ہو سکتے ہیں جب ہم لوگ منافقت کی طرز زندگی سے باہر نکلیں گے تب  ہمیں دین اور دنیا کی سمجھ آ جائے گی کیونکہ پاکستان کی جو  موجودہ حالت ہے اس کی دنیا بھی خراب ہے اور   آخرت بھی  کیوں کہ مذہب کے نام پر ایسے طالبان  پسند ہیں اور ماڈرن ازم کے نام پر اسے امریکا  اور یوکے والی زندگی چاہیے 
طالبان صرف دین کے نام پر ڈھونگ رچانے والے ہیں اور ماڈرنزم  والے  لوگ دین سے خارج لوگ ہیں اور بدقسمتی سے پاکستان مذہب اور ماڈرنزم کو ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے یہی پاکستان کی منافقت ہے 
تب ہی یہاں کے لوگ نہ دین میں نہ دنیا میں اس لیےاپنی ذات اور اپنے ملک پر توجہ دیں اپنے معاشرے کو بہتر کریں جو کسی کا طرز زندگی اپنا تے ہیں نا ان کی کوئی پہچان نہیں رہتے وہ اپنا نام بھی گنوا دیتے ہیں 
اور جہاں تک افغانستان میں طالبان کی حکومت کا تعلق ہے وہ پاکستانیوں کے لیے خطرے کی گھنٹی سے خالی نہیںاگر وہ ہمارے ساتھ ہے تو خطرہ اور اگر نہیں بھی ہیں تو خطرہ 
کیونکہ جب بندر کے ہاتھ ماچس لگتی ہیں تو وہ کبھی کبھی خود کو بھی جلا ڈالتا ہے اور جو بندر کی پیروی کرنے والے ہوتے وہ بھی ساتھ میں جلتے ہیں اس لیے پاکستانی ہوش کے ناخن لیں اور اپنے ملک کی پالیسیوں کے بارے میں سوچیں بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کی طرح ناچ ناچ کر شہر سر پر نہ اٹھائیں خود آپ پانچ وقت کی نماز نہیں پڑھ سکتے اور ہمسایہ ملک میں آپ کو اسلامی حکومت چاہیے خود مسلمان ہو کر بھی آپ پر  سلام فرض نہیں ہے اور ہمسایہ ملک میں آپ کو اسلامی طرز زندگی چاہیے منافقت سے باہر آئے اور حقیقت کا سامنا کرنا سیکھیں خود کو ٹھیک کرے اپنے آپ کو ایسا مسلمان بنائے کہ لوگ آپ کی مثال دے یہ نہ ہو آپ کو مسلمان ہونے کے لیے طالبان کی مثال دینی پڑے کیونکہ طالبان کون سے  نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر پورا اترتے ہیں یہ تو بہروپیہ ہیں اسلام کا چولا پہن کر ہم جیسوں کو اپنے پیچھے لگاتے ہیں اس لیے اپنے ایمان کی حفاظت کرے کوفیوں جیسی منافقت چھوڑ کر حق اور سچ کا ساتھ دیں تاکہ کل کو آپ سینہ تان کے کہہ سکے کہ  آپ مسلمان ہیں  اور اسلام خوبصورت دین ہیں اسے کسی طالبان کی ضرورت نہیں اسے سچے انسان کی ضرورت ہےجو  حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی تعلیمات پر زندگی گزار سکے اور اپنے طرز عمل سے دکھا سکے کہ وہ ایک سچا مسلمان ہے اسلامی روپ دھار لینے سے کوئی مومن نہیں ہو جاتا  کیونکہ بے شک عمل کا دارومدار نیت پر ہے اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو 
ذرا سوچئے کہ بات تو سوچنے کی ہے 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here