یہ بہت پرانی بات ہے، میں نے لاہور میں ایم اے او کالج کی بیک پر ایک پرائیویٹ ہاسٹل میں کمرہ کرائے پر لے رکھا تھا، سارا دن کام کرتا تھا اور رات کو آکر بستر پر گر پڑتا تھا، ایک شام ایک بزرگ ٹوبہ ٹیک سنگھ سے آگئے، وہ موبائل فون کا زمانہ نہیں تھا، لوگ ایک دوسرے کو لینڈ لائن پر فون کرتے تھے یا پھر خط اور رقعے لکھتے تھے، بزرگ میرے ایک کلاس فیلو کا رقعہ لے آئے، میں نے انھیں چائے پلائی، کھانا کھلایا اور پھر تشریف آوری کی وجہ پوچھی، وہ بولے “آپ جس ہاسٹل میں رہ رہے ہیں میں اس کے مالک سے ملنا چاہتا ہوں۔
آپ میری ملاقات کا بندوبست کر دیں ” میں نے عرض کیا “جناب میں ان کو بالکل نہیں جانتا، میں آپ کی ملاقات کیسے کرا سکتا ہوں ” مگر ان کا کہنا تھا “آپ کوشش کریں، ہمارا مقصد نیک ہے، ملاقات ان شاء اللہ ہو جائے گی” قصہ مختصر میں نے “ری سیپشنسٹ” کی منت کی، اس سے مالک کا ایڈریس لیا، یہ بھی پتا چلا وہ جہانگیر بدر کا دست راست ہے اور جہانگیر بدر اس زمانے میں پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر تھے، میں جیسے تیسے بزرگ کو ہاسٹل کے مالک کے پاس لے گیا۔
وہ ایک انتہائی مغرور اور بدتمیز شخص تھا، وہ باہر گیٹ پر آیا اور ہم سے کھڑے کھڑے پوچھا “ہاں کیا بات ہے” میں تازہ تازہ صحافی بنا تھا لہٰذا مجھے اپنا تعارف کرانے کا بہت شوق تھا، میں نے تعارف کرایا مگر وہ گیٹ پکڑ کر ہمیں گھورتا رہا، میں نے بزرگ کی طرف دیکھا، وہ آہستہ آواز میں بولے ” بیٹا میں شیخ اللہ دتہ ہوں، ٹوبہ ٹیک سنگھ سے آیا ہوں، آپ کے والد میرے دوست تھے، میں آپ کو بچپن میں سیکڑوں مرتبہ ملا تھا” وہ تھوڑا سا نرم ہوا، اس نے ہمیں اندر بلا لیا لیکن باہر برآمدے میں بٹھا دیا اور بزرگ سے پوچھا “جی فرمایے، میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں ” بزرگ بولے “آپ کے والد نے لوگوں کا قرضہ دینا تھا، وہ سخت دل لوگ ہیں، وہ روز آپ کے والد کی قبر پر آتے ہیں، مرحوم کو برا بھلا کہتے ہیں اور قبر سے اپنا قرض واپس مانگتے ہیں، مجھے یہ دیکھ کر شرم آتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے تحاشا نواز رکھا ہے، میرا مشورہ ہے آپ اپنے شہر واپس جائیں، ان لوگوں کا حساب کریں اور ان کی رقم ادا کر دیں تاکہ وہ آپ کے والد کی قبر کی تذلیل بند کر دیں ” وہ شخص ہنسا اور بزرگ سے مخاطب ہوا “شیخ صاحب مشورے کا بہت شکریہ لیکن پیسے میرے والد نے دینے تھے، میں کیوں ادا کروں؟ آپ میری طرف سے معذرت قبول کریں اور مجھے آیندہ ڈسٹرب نہ کیجیے گا” یہ سن کر میرے ماتھے پر پسینہ اور بزرگ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، وہ بولے “بیٹا وہ آپ کا والد تھا اور والدین کا قرضہ ادا کرنا اولاد کا فرض ہوتا ہے” اس شخص نے قہقہہ لگایا اور بولا “ہوگا لیکن میں اس کو نہیں مانتا، میں نے اباجی کو نہیں کہا تھا وہ یوں لوگوں سے پیسے اکٹھے کرتے رہیں “وہ اس کے ساتھ ہی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا، ہم بھی کھڑے ہوئے اور چپ چاپ باہر نکل گئے۔
بزرگ نے راستے میں بتایا ” اس کا والد پوری زندگی لوگوں سے فراڈ کرتا رہا، ہم اسے روکتے تھے تو وہ اپنے بچوں کا نام لے کر کہتا تھا، مجھے ان کی تعلیم اور ضرورتوں نے مجبور کر رکھا ہے لیکن آج وہی بچے اپنے والد اور اس کے قرض کو پہنچانے کے لیے تیار نہیں ہیں جب کہ قرض خواہ روز ان کے والد کی قبر پر آتے ہیں اور بددعا دے کر واپس جاتے ہیں “۔ مجھ پر اللہ نے کرم کیا اور میں وقت کے کندھے پر بیٹھ کر زندگی میں آگے آ گیا لیکن آپ یقین کریں میں نے جب بھی کوئی جنازہ اور کوئی قبر دیکھی مجھے یہ واقعہ یاد آ گیا اور میرا جسم پسینے میں بھیگ گیا۔
یہ میری زندگی کا پہلا واقعہ تھا اور دوسرا واقعہ ڈاکٹر امجد کا جنازہ تھا، ڈاکٹر امجد ایڈن ہاؤسنگ اسکیم کا مالک تھا، اس کے والد ڈپٹی کمشنر رہے تھے اور یہ آئی جی پنجاب سردار محمد چوہدری کا داماد تھا، اللہ تعالیٰ نے اس پر دولت کی بارش کی اور یہ اس بارش میں بھیگتا بھیگتا کیچڑ میں جا گرا، اس نے سب سے پہلے ایڈن ہاؤسنگ اسکیم کے 13 ہزار ممبرز کے دس ارب روپے ہڑپ کیے اور پھر اس نے پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں نذر گوندل کے بھائی ظفر گوندل کے ساتھ مل کر ای او بی آئی کی رقم بھی اڑالی، ڈاکٹر امجد نے فرضی پلاٹ دے کر ظفر گوندل سے دو ارب روپے لیے تھے اور یہ دونوں بعدازاں یہ رقم آدھی آدھی کر کے نگل گئے۔
متاثرین نے احتجاج شروع کیا، افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس تھے، سوموٹو ہوا، عدالت میں پیشیاں شروع ہوئیں، لاہور کے ایک وکیل کے ذریعے چیف جسٹس اور ملزم کے درمیان رابطہ ہوا اور یہ رابطہ بہت جلد رشتے داری میں بدل گیا، ڈاکٹر امجد کے صاحبزادے مرتضیٰ امجد اور افتخار محمد چوہدری کی صاحبزادی افرا افتخارکی شادی ہو گئی اور یوں ایڈن ہاؤسنگ اسکیم اور ای او بی آئی کے کیسز کھوہ کھاتے چلے گئے، دور بدلا، نیب کے مقدمے شروع ہوئے تو پورا خاندان ملک سے بھاگ گیا، نیب نے ریڈ وارنٹ جاری کر دیے، ایف آئی اے نے 26 ستمبر 2018 کو مرتضیٰ امجد کو دبئی سے گرفتار کر لیا، لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج نے ریڈ وارنٹ کو غیرقانونی قرار دے دیا اور یہ لوگ خاندان سمیت کینیڈا شفٹ ہو گئے، کیسز چلتے رہے، فراڈ کی رقم 25 ارب روپے تک پہنچ گئی۔
یہ اس دوران پلی بارگین کے لیے بھی راضی ہو گیا لیکن یہ تین ارب روپے دے کر 25 ارب روپے معاف کرانا چاہتا تھا، نیب نہیں مانا، یہ اس دوران کسی پراسرار بیماری کا شکار ہو گیا، پاکستان آیا، علاج شروع ہوا لیکن طبیعت بگڑتی رہی یہاں تک کہ دنیا بھر کے ڈاکٹرز، ادویات اور افتخار محمد چوہدری کا اثرورسوخ بھی کام نہ آیا اور ڈاکٹر امجد 23اگست 2021کو لاہور میں انتقال کر گیا، لواحقین نے اسے خاموشی کے ساتھ دفن کرنے کی کوشش کی لیکن متاثرین کو خبر ہو گئی اور یہ پلے کارڈز اور پوسٹرزلے کر پہلے اس کے گھر اور پھر جنازے پر پہنچ گئے اور “ہماری رقم واپس کرو” کے نعرے لگانے لگے، پولیس بلائی گئی، پولیس جنازے اور احتجاجیوں کے درمیان کھڑی ہو گئی، پولیس کی مدد سے جنازہ اٹھایا گیا اور پولیس ہی کی نگرانی میں ڈاکٹر امجد کو دفن کیا گیا، آج اس واقعے کو 8دن ہو چکے ہیں لیکن متاثرین اس کی قبر پر بھی آ جاتے ہیں جس کی وجہ سے خاندان نے وہاں گارڈز کھڑے کر دیے ہیں۔
یہ انتہا درجے کا عبرت ناک واقعہ ہے لیکن آپ اس سے بھی بڑی عبرت ملاحظہ کیجیے، ڈاکٹر امجد نے جس خاندان اور جن بچوں کے لیے 25 ارب روپے کا فراڈ کیا تھا، وہ جنازے کے وقت کینیڈا میں بیٹھے تھے اور ان میں سے کوئی شخص اسے مٹی کے حوالے کرنے کے لیے پاکستان نہیں آیا تھا۔ یہ واقعہ دولت کے پیچھے باولے ہونے والے بے وقوفوں کے لیے نشان عبرت ہے، یہ ثابت کرتا ہے انسان جب ہوس کے کیچڑ میں گرتا ہے تو یہ پھر انسان نہیں رہتا، یہ بدبودار کیچڑ بن جاتا ہے، آپ نے کبھی غور کیا دولت آخر ہے کیا؟ یہ صرف کاغذ کے ٹکڑے ہیں اور یہ کاغذ کے ٹکڑے جل بھی سکتے ہیں۔ گل بھی سکتے ہیں، پھٹ بھی سکتے ہیں اور کینسل بھی ہو سکتے ہیں یا پھر دولت بینکوں کی اسٹیٹمنٹ پر چھپی ہوئی چند فگرز اور ان کے آخر میں بے شمار صفر ہے اور یہ صفر اور یہ بینک بھی کسی بھی وقت ختم ہو سکتے ہیں یا پھر دولت اللہ کی زمین کے چند ٹکڑے ہے اور ان ٹکڑوں کا اصل مالک کون ہے؟ ہمارا رب اور یہ رب جب چاہے اپنی لیز جس کے نام چاہے شفٹ کر دے اور بس، سوال یہ ہے ہم پھر پرائے مال کے لیے کیوں باولے ہوجاتے ہیں، ہم زمینی ٹکڑوں، بینکوں کے زیروز اور کاغذ کے نوٹوں کے لیے بددعاؤں کی فصل کیوں بوتے ہیں؟ ہم لوگوں کی آہیں۔ بددعائیں اور لعنتیں کیوں اکٹھی کرتے ہیں اور کس کے لیے کرتے ہیں؟ ان کے لیے جو ہماری آنکھیں بند ہوتے ہی ہمارے مال کے لیے ایک دوسرے کا گلا کاٹنے لگتے ہیں یا ہم سے ہزاروں میل دور بیٹھ کر ابا مرحوم، ابا مرحوم کہتے رہتے ہیں اور ہمیں دفن پرائے لوگ کرتے ہیں، میں اکثر اپنے دوستوں سے عرض کرتا ہوں آپ کی عمر اگر 50 سال ہو چکی ہے تو آپ پلیز پلیز اپنی چارج شیٹ سے گناہ، حرص اور فراڈ کو خارج کر دیں، آپ نے جس سے معافی مانگنی ہے مانگ لیں۔
جس کو جو دینا ہے دے دیں اور جتنی توبہ کرنی ہے کر لیں، آپ کے پاس زیادہ مہلت نہیں ہے، زندگی کی رسی کسی بھی وقت کھینچ لی جائے گی اور آپ یہ حقیقت جتنی جلدی سمجھ جائیں گے آپ کے لیے اتنا ہی اچھا ہو گا اور آپ یہ بھی جان لیں چیونٹیوں کا اکٹھا کیا ہوا رزق ہمیشہ چوہے کھاتے ہیں لہٰذا خدا کے لیے چیونٹیوں کی زندگی نہ گزاریں، اپنے قد سے بڑے دانے نہ کھینچیں اور اپنی ضرورت سے زیادہ جمع نہ کریں، آپ کی حرص آپ کو جینے نہیں دے گی اور آپ کا جمع کیا ہوا پلے کارڈ بن کر آپ کے جنازے کے آگے آگے چلتا رہے گاجب کہ آپ کی ہوس کے بینی فشری پانچ دس ہزار کلو میٹر دور بیٹھ کر اپنے دوستوں کو “مائی ڈیڈ پاسڈ اوے” کے میسج کرتے رہیں گے اور ان کے دوست “اووو” کا جواب دے کر پارٹی میں مصروف ہو جائیں گے چناں چہ رک جائیں، آگے کھائی ہے اور اس کھائی میں ڈاکٹر امجد جیسے ہزاروں لوگ گرے پڑے ہیں۔