اکی کو واڈا (Akiko Wada) جاپان میں پیدا ہوئی، شان دار زندگی گزار رہی تھی لیکن پھر اس نے 1986 میں کیلاش کے لوگوں کے بارے میں پڑھا اور یہ 1987 میں کیلاش آ گئی، یہ بالان گرو گائوں میں گھوم رہی تھی، اچانک ماحول، کلچر، لوگ اور زبان اس پر غالب آ گئی اور اس نے جاپان واپس جانے سے انکار کر دیا یوں یہ پہلی فارنر تھی جو کیلاش آئی اور اس نے کیلاشی بننے کا فیصلہ کر لیا۔
اکی کو آج تک وہاں موجود ہے، ہم نے 22 اگست کو اسے اوچال فیسٹول میں کیلاشی ڈانس کرتے بھی دیکھا اور لوکل لڑکے اور لڑکیوں سے ملتے ہوئے بھی، اس نے کیلاش کی زبان بھی سیکھ لی ہے، مذہب بھی اختیار کر لیا ہے اور یہ ان کی تہذیب میں بھی رچ بس گئی ہے، یہ موبائل فون، ٹیلی ویژن اور سوشی کے بغیر مزے سے زندگی گزار رہی ہے۔
کیلاشی عورتوں کی طرح اپنے کپڑے خود سیتی ہے، اپنا کھانا خود بناتی ہے اور روپے پیسے کے بغیر سادہ زندگی گزارتی ہے، یہ اب سرتا پا کیلاشی ہے، شام کو جلد سو جاتی ہے اور سورج نکلنے سے پہلے جاگ کر کام کاج شروع کر دیتی ہے، یہ خوش ہے بس اسے تین پریشانیاں ہیں، اسے تبلیغ کرنے والے لوگ پسند نہیں ہیں، یہ کہتی ہے کیلاش اور کیلاشی دونوں منفرد ہیں، یہ اگر اسی طرح مسلمان ہوتے رہے تو یہ کلچر ختم ہو جائے گا اور یہ پاکستان کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔
دوسرا اس کا کہنا ہے کیلاش میں جب سے پیسہ آیا ہے اس وقت سے لوگ بدلنے لگے ہیں، یہ اب نوٹوں سے خریدوفروخت کرتے ہیں میں جب یہاں آئی تھی تو اس وقت بارٹر سسٹم ہوتا تھا، لوگ چیزیں دے کر چیزیں خریدتے تھے اور خوش تھے لیکن کرنسی نوٹ آنے کے بعد ہم لوگ خوش نہیں ہیں اور تیسرا کیلاشی کلچر میں خواتین گائوں میں صرف ہاتھ دھو سکتی ہیں۔
یہ واش روم اور نہانے کے لیے گائوں سے باہر ندی پر جاتی ہیں، اکی کو یہ پسند نہیں کرتی، اس نے گائوں میں خواتین کے لیے کامن باتھ رومز بنوائے لیکن خواتین یہ استعمال نہیں کرتیں، اسے عورتوں کی یہ تکلیف اچھی نہیں لگتی مگر یہ اس کے باوجود کیلاش چھوڑ کر واپس جاپان جانے کے لیے تیار نہیں ہے، یہ کیلاش ہی میں مرنا چاہتی ہے۔
کیلاشی لوگ تین ہزار سال پرانے ہیں، یہ اینم ازم (Animism) کے ماننے والے ہیں، ان کا خیال ہے دنیا کی ہر چیز بشمول الفاظ کی ایک روح ہوتی ہے اور یہ جب تک ان کے اندر موجود رہتی ہے یہ زندہ رہتے ہیں اور جب یہ مر جاتی ہے تو پھر پتھر ہوں، لفظ ہوں یا پھر پودے، جانور اور انسان یہ فوت ہو جاتے ہیں، کیلاشی بارہ خدائوں کو مانتے ہیں، عورتیں مذہبی عبادت گاہوں میں داخل نہیں ہو سکتیں۔
انتقال کو وصال اور دوسری زندگی سمجھتے ہیں چناں چہ یہ انتقال پر ڈھول اور بانسری بجاتے ہیں اور مردے کو باقاعدہ رقص کرتے ہوئے قبرستان لے کر جاتے ہیں، یہ تابوت زمین پر رکھتے ہیں اور اس کا ڈھکن کھول دیتے ہیں، مردے کا گوشت جانور، پرندے اور کیڑے کھا جاتے ہیں اور ہڈیاں پیچھے رہ جاتی ہیں، مردے کی چارپائی، لباس اور برتن بھی تابوت کے پاس رکھ دیے جاتے ہیں۔
کیلاشی لوگوں کا مرکزی قبرستان بمبوریت میں ہے، ہمارے گروپ نے وہاں وزٹ کیا اور اپنی آنکھوں سے تابوت اور ان میں ہڈیاں دیکھیں، یہ اب مُردوں کو دفن بھی کرنے لگے ہیں تاہم مرگ پرڈھول اور ناچنے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے، کیلاشی خوشی میں تین تین کی ٹولیوں میں ناچتے ہیں جب کہ غم میں دو دو کیلاشی ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈال کر رقص کرتے ہیں، شادی کے لیے لڑکا لڑکی کو بھگا کر لے جاتا ہے۔
شادی شدہ خواتین بھی دوسروں کے ساتھ بھاگ جاتی ہیں لیکن یہ اس کے بعد ایک دوسرے سے لڑتے نہیں ہیں، بزرگ اکٹھے بیٹھ کر شادی کی اجازت دے دیتے ہیں تاہم اگر لڑکی شادی شدہ ہو تو نئے خاوند کو پرانے خاوند کو ڈبل جہیز دینا پڑتا ہے، خواتین کو خاص ایام میں ناپاک تصور کرتے ہیں اور انھیں پانچ دنوں کے لیے ایک احاطے میں چھوڑ آتے ہیں، احاطہ بشالینی کہلاتا ہے، کیلاشی لوگ بشالینی کی دیوار اور دروازے کو ہاتھ لگانا گناہ سمجھتے ہیں، ہم نے بمبوریت میں بشالینی بھی دیکھی اور اس میں بند خواتین بھی، خواتین رنگ برنگے فراک نما کپڑے پہنتی ہیں، ان پر سپیاں اور مختلف رنگوں کی لیس لگاتی ہیں، سر پر لمبے پھندے والی کیلاشی ٹوپی پہنتی ہیں۔
مذہبی رہنما قاضی کہلاتا ہے اور اس کا فرمایا ہوا حرف آخر ہوتا ہے، تہوار چار ہیں اور یہ چاروں موسموں کے شروع میں منائے جاتے ہیں، کیلاشی اس میں کھل کر رقص کرتے ہیں، اپنی شراب بناتے ہیں اور سب مل کر پیتے ہیں، جانوروں کی قربانی بھی کرتے ہیں اور ان کے مذہب میں جھوٹ، فریب اور دھوکا ناقابل معافی جرائم ہیں، یہ ممکن نہیں کوئی کیلاشی کسی کو دھوکا دے، جھوٹ بولے یا پھر فریب کاری کرے لہٰذا یہ کام کیلاش میں موجود مسلمانوں کو کرنا پڑتے ہیں۔
کیلاشی لوگ علاقے کے قدیم ترین باشندے ہیں، یہ کوہ ہندوکش، قراقرم اور ہمالیہ کی مختلف وادیوں میں آباد رہے، بھوٹان اور نیپال تک کیلاشی الفاظ اور روایات موجود ہیں، 327 قبل مسیح میں سکندر اعظم ہندوستان میں داخل ہوا تو اس کے چند درجن فوجیوں اور جرنیلوں نے آگے جانے سے انکار کر دیا، یہ لوگ افغانستان اور آج کے پاکستان کی سرحد پررہ گئے یوں یونانی خون کیلاشی لوگوں میں شامل ہوا اور ایک نئی نسل نے جنم لے لیا، ہم اسے یورو کیلاشی بریڈ کہہ سکتے ہیں، یونانیوں نے کیلاشیوں کو لشکر بنانا، لڑنا اور قبضہ کرنا سکھایا اور یہ آہستہ آہستہ افغانستان کے صوبے نورستان، دیر اور چترال پر قابض ہوتے چلے گئے۔
کیلاشی محمود غزنوی تک پورے علاقے پر حکمران رہے لیکن پھر آہستہ آہستہ ان کا اقتدار کم زور پڑتا چلا گیا یہاں تک کہ 1320 میں افغانستان کے مسلم قبائل نے چترال پر حملہ کر کے کیلاشی لوگوں کو نابود کر دیا، نوے فیصد کیلاشی ان جنگوں میں مارے گئے، صرف دس فیصد بچے اوروہ آج کی کیلاش وادی اور افغانستان کے صوبے نورستان کے پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔
نورستان انیسویں صدی کے آخر تک کیلاشی لوگوں کی وجہ سے کافرستان کہلاتا تھا، افغانوں اور ازبکوں نے 1895 میں کافرستان پر حملہ کیا، ساری کیلاشی آبادی کو زبردستی مسلمان بنایا اور کافرستان کا نام بدل کر نورستان رکھ دیا، نورستان کی سرحد بمبوریت سے ملتی ہے، لوگ آج بھی کیلاش سے افغانستان اور افغانستان سے پیدل کیلاش آتے ہیں، ہمارے ہوٹل سے نورستان کی پہاڑیاں اور گلیشیئرز صاف نظر آتے تھے۔
نورستان کے کیلاشی مسلمان ہو گئے یا قتل کر دیے گئے تاہم کیلاش کی وادی محفوظ رہی، اس کی وجہ اس کا جغرافیہ تھا، یہ ایک دشوار گزار علاقہ ہے جس تک دنیا کی رسائی نہیں تھی چناں چہ دنیا کیلاش اور کیلاش دنیا سے ناواقف رہا، انگریزوں نے 1940 میں انھیں ڈسکور کیا اور یوں دنیا ان عجیب وغریب اور حیران کن لوگوں سے متعارف ہوئی، یہ لوگ اس کے بعد بھی باہر جاتے تھے اور نہ کسی کو کیلاش آنے دیتے تھے مگر پھر وقت کے ساتھ تبدیلی آتی رہی۔
سیاح خچروں، گھوڑوں اور جیپوں پر یہاں پہنچتے رہے اور آہستہ آہستہ دنیا نے انھیں اور انھوں نے دنیا کو قبول کر لیا لیکن اس سیاحتی آمدورفت کے دوران کیلاشی لوگوں کا کلچر اور روایات متاثر ہونے لگیں، یہ لوگ دوسرے علاقوں اور ملکوں میں بھی آباد ہونے لگے اور لوگ بھی یہاں دھڑا دھڑ پہنچنے لگے یوں یہ آج سکڑتے سکڑتے صرف چار ہزار رہ گئے ہیں، ماہرین کا خیال ہے اگر مذہب کی تبدیلی کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو کیلاشی لوگ اگلے 20 برسوں میں صرف کتابوں، عجائب گھروں اور فلموں میں رہ جائیں گے۔
کیلاش کی وادی خشک بنجر پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے، درمیان سے دریا اور سائیڈز سے ندیاں گزرتی ہیں، علاقے میں اخروٹ، ناشپاتی، سیب، خوبانی اور شہتوت کے درخت ہیں، سرخ انگور بھی بے تحاشا پیدا ہوتا ہے، علاقے میں بکریاں اور بھیڑیں بھی ہیں، یہ لوگ مکئی اور باجرہ بھی اگاتے ہیں تاہم یہ گندم چترال سے خریدتے ہیں، خوبانی اور اخروٹ کے آٹے کی انتہائی لذیذ روٹی پکاتے ہیں اور بکری کے دودھ کے پنیر کے ساتھ کھاتے ہیں، دالوں کا سوپ بناتے ہیں اور بکری اور بھیڑ کے گوشت کا دم پخت پکاتے ہیں۔
خوبانی، ناشپاتی اور شہتوت سکھاتے ہیں اور سردیوں میں یہ کھاتے بھی ہیں اور ان کا سالن بھی بناتے ہیں، کھانوں میں مرچ بالکل استعمال نہیں کرتے، عورتیں اور مرد دیسی شراب پیتے ہیں لیکن یہ اب شکوہ کرتے ہیں جب سے لاہور، گوجرانوالہ اور ملتان کے لوگوں نے کیلاش آنا شروع کیا ان کی شراب کم پڑ جاتی ہے، یہ پیاسے رہ جاتے ہیں جب کہ مہمان گلیوں میں جھومتے رہتے ہیں، خواتین میں حیاء اور سادگی ہے، یہ بااعتماد اور تگڑی بھی ہیں۔
میں نے پاکستان میں کیلاش واحد علاقہ دیکھا جس میں تمام خواتین نے ماسک پہن رکھے تھے، پتا چلا ان کے قاضی نے حکم دیا تھا اور قاضی جب تک یہ حکم واپس نہیں لے گا یہ اس وقت تک ماسک میں رہیں گی، یہ بھیک نہیں مانگتے لیکن اگر انھیں کھانے کا سامان یا پیسے دیے جائیں تو یہ شکریے کے ساتھ قبول کر لیتے ہیں، ملاقات کے وقت ایک دوسرے کے ہاتھ چومتے ہیں، دوسروں کے مذہب کا احترام کرتے ہیں اوردوسروں سے اپنے مذہب کے احترام کی توقع رکھتے ہیں لیکن ان کی یہ توقع پوری نہیں ہوتی۔
یونان کے چند والنٹیئرز ہر سال یہاں آتے ہیں اور کمیونٹی کی خدمت کرتے ہیں، یونانی والنٹیئر زنے یہاں انتہائی خوب صورت میوزیم بھی بنایا اور اسکول بھی قائم کیے، یہ حکومت پاکستان کے بجائے ان لوگوں کے زیادہ احسان مند ہیں۔
کیلاش کا سفر بہت دشوار گزار ہے لیکن میں اس کے باوجود مشورہ دوں گا آپ نے اگر کیلاش نہیں دیکھا تو زندگی میں کم از کم ایک بار وہاں ضرور جائیں، یہ تجربہ حقیقتاً آپ کی زندگی کا انوکھا اور یادگار تجربہ ہو گا، آپ پوری زندگی کیلاش کو یاد رکھیں گے۔