“ہماری حکومت کے ساتھ رشتے داری ہو چکی ہے، ہم اب بڑی تیزی سے سیاسی اتحاد کی طرف بڑھ رہے ہیں ” ان کے لہجے میں یقین تھا اور میں حیرت سے انہیں دیکھ رہا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے تازہ تازہ کنٹونمنٹ بورڈز کے الیکشن میں مار کھائی تھی، ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی پورے پنجاب کے کنٹونمنٹ بورڈز سے ایک بھی سیٹ نہیں نکال سکی، میں اس ناکامی پر اظہار افسوس کر رہا تھالیکن وہ میری بات پر توجہ دینے کی بجائے فرما رہے تھے ہم اور حکومت اب رشتے دار بن چکے ہیں اور اگلے الیکشن میں ہمارے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو جائے گی۔
وہ بولے “آپ کو یقین نہیں آ رہا ہو گا” میں نے فوراً نفی میں سر ہلا دیا، وہ بولے ” آپ نے 13ستمبر کے اخبار دیکھے، ملک کے تمام بڑے اخبارات کے صفحہ اول پر ایک تصویر چھپی تھی اور تصویر میں بلاول بھٹو زرداری اور مونس الٰہی اکٹھے بیٹھے تھے اور مونس الٰہی صرف چودھری پرویز الٰہی کے صاحبزادے نہیں ہیں، یہ عمران خان کی کابینہ کے آبی وسائل کے وزیر بھی ہیں لہٰذا یہ کسی حکومتی وزیر کا بھٹو خاندان کے ساتھ پہلا باقاعدہ رابطہ تھا” وہ خاموش ہو گئے، میں نے عرض کیا “لیکن آپ کی رشتے داری کیسے ہو گئی؟”
وہ ہنس کر بولے “بلاول بھٹو پی ڈی ایم کے ذریعے پنجاب میں عثمان بزدار کی حکومت گرانا چاہتے تھے، پاکستان مسلم لیگ ق نے پیپلز پارٹی کو پیش کش کی تھی آپ اگر چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنا دیں تو ہم اپنے 10ارکان کے ساتھ حمایت کے لیے تیار ہیں، چودھری صاحبان تمام اہم وزارتیں ن لیگ کو دینے کے لیے بھی تیار تھے لیکن میاں صاحبان نہیں مانے، ان کا خیال تھا چودھری مضبوط اور سمجھ دار ہیں، یہ اگر ایک بار حکومت میں آ گئے تو یہ ن لیگ کے ٹکڑے کر کے نگل جائیں گے چناں چہ بات آگے نہ بڑھ سکی۔
پیپلز پارٹی آخر میں ڈیڈ لاک ختم کرنے کے لیے حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنانے کے لیے بھی تیار ہو گئی تھی مگر میاں نواز شریف کو یہ سودا بھی منظور نہیں تھا، یہ چاہتے تھے پنجاب کو عثمان بزدار کا مزہ پوری طرح چکھنے دیں، اگر اللہ کو منظور ہوا تو ہم کبھی نہ کبھی واپس آ جائیں گے یوں یہ ڈیل بھی نہ ہو سکی اور پی ڈی ایم ٹوٹ گئی، ق لیگ اب پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر اگلے الیکشن کی تیاری کر رہی ہے، اس کا خیال ہے ہم اگر اکٹھے ہو جائیں تو ہم عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اچھی ڈیل کر سکتے ہیں چناں چہ خفیہ ملاقاتیں اب اوپن ہو رہی ہیں ” میں نے عرض کیا “لیکن حکومت سے آپ کی رشتے داری کیسے شروع ہو گئی”۔
وہ ہنسے اور پھر بولے “آپ جانتے ہیں علیم خان نے پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینل سماء بھی خرید لیا ہے اور وزیر خزانہ شوکت ترین کا سلک بینک بھی لہٰذا یہ اب صرف پراپرٹی ٹائیکون نہیں رہے، یہ بینکر بھی بن چکے ہیں اور میڈیا مالک بھی، یہ بہت جلد پی بی اے کا حصہ بھی بن جائیں گےاور اخبار خرید کر یا اپنا پرانا اخبار ایکٹو کر کے اے پی این ایس کے ممبر بھی اور یوں یہ حکومت سے زیادہ مضبوط ہو جائیں گے، یہ وزارت سے مستعفی بھی ہو رہے ہیں اور آپ یہ بھی جانتے ہیں یہ ق لیگ سے پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے” وہ پھر خاموش ہو گئے، میں نے ایک بار پھر پوچھا “سر لیکن آپ رشتے داری کا نہیں بتا رہے” وہ ہنس کر بولے “علیم خان نے بینک کس سے خریدا؟ وزیرخزانہ شوکت ترین سے اور شوکت ترین کون ہیں؟
یہ اومنی گروپ کے مالک انور مجید کےرشتے داربھی ہیں، آصف علی زرداری کے دوست بھی اور یہ پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر خزانہ بھی رہے، نیب کا خیال تھا آصف علی زرداری کا سرمایہ بھی سلک بینک میں لگا ہوا تھا، بینک اومنی گروپ کی شوگر ملز کو قرضہ بھی دیتا تھا چناں چہ آپ ذرا ڈاٹ ملا کر دیکھیے، عمران خان پیپلز پارٹی کی قیادت کا احتساب کر رہے ہیں، علیم خان عمران خان کے دوست بھی ہیں اور ن لیگ ان پر “اے ٹی ایم” کا الزام بھی لگاتی تھی۔
انہوں نے وہ بینک خرید لیا جس کے بارے میں حکومت کا خیال تھا یہ منیلانڈرنگ میں استعمال ہوتا رہا اور یہ بینک حکومت کے موجودہ وزیرخزانہ اور ماضی میں آصف علی زرداری کے دوست شوکت ترین سے خریدا گیا اور خریدار اور فروخت کنندہ دونوں کے ماضی کی جڑیں پیپلز پارٹی اور ق لیگ میں پیوست ہیں لہٰذا ہم اب ایک روشن مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں ” وہ رک گئے، میں نے بولنے کے لیے منہ کھولا لیکن وہ بولے” اور 12ستمبرکو مونس الٰہی چل کر بلاول بھٹو کے پاس گئے، ملاقات ہوئی اور دونوں نے اس ملاقات کی تصویر بھی ریلیز کر دی لہٰذا باقی آپ خود سمجھ دار ہیں “۔
میری ہنسی نکل گئی اور میں نے مسکراتے ہوئے کہا “جناب میں آپ کو آٹھ کے اس پہاڑے کی داد دیتا ہوں، آپ نے کہاں کی کوڑی کہاں جا ملائی؟ آپ کا کہنا ہے طاقتور اور امیر لوگ کسی بھی پارٹی میں ہوں یہ آپس میں رشتے دار ہوتے ہیں ” وہ ہنسے اور بولے “یہ بہت بڑی حقیقت ہے، کیا آپ کو وزیراعظم عمران خان کے اردگرد وہ لوگ نظر نہیں آ رہے جو ماضی میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی قیادت کے دائیں بائیں ہوتے تھے، یہ کاری گرلوگ ہیں، یہ ہر تالہ کھول لیتے ہیں اور ہر تخت نشین کے ساتھ جا بیٹھتے ہیں، یہ وہ بھینسیں ہیں جو ایک دوسرے کی بہنیں ہوتی ہیں اور آپ جو بھی کر لیں آپ ان کا رشتہ کم زور نہیں کر سکتے”۔
وہ خاموش ہوئے اور پھر بولے “عمران خان کو اس جوڑ توڑ پر توجہ دینی چاہیے لیکن یہ اسے چھوڑ کر میڈیا اور الیکشن کمیشن کے پیچھے دوڑ رہے ہیں، پاکستان میں آج تک کوئی پارٹی مولویوں اور میڈیا کا مقابلہ نہیں کر سکی اور عمران خان نے دونوں کو چھیڑ لیا، دوسرا آپ چیف الیکشن کمشنر سے لاکھ اختلاف کریں لیکن آپ کو یہ ماننا ہو گا یہ ایمان دار اور بہادر انسان ہیں، آپ انہیں قائل کر کے اونٹ بھی کھلا سکتے ہیں لیکن یہ دھونس اور دبائو میں ایک بوٹی بھی نہیں نگلتے، حکومت کو چاہیے تھایہ ان سے بات چیت کرتی، انہیں قائل کرتی لیکن اس نے انہیں دبانا شروع کر دیا اور یہ ڈٹ گئے۔
حکومت یہ بھی بھول گئی الیکشن کمیشن میں پاکستان تحریک انصاف کی فارن فنڈنگ کا کیس چل رہا ہے اور سکندر سلطان راجہ اعصاب کے اتنے مضبوط ہیں کہ یہ کسی بھی وقت فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کر دیں گے اور حکومت “کھوہ کھاتے” میں جا گرے گی” میں نے عرض کیا “آپ درست فرما رہے ہیں، وزیراعظم نے جنوری 2020ء میں جب سکندرسلطان راجہ کو چیف الیکشن کمشنر لگایا تھا تو ن لیگ اس فیصلے سے خوش نہیں تھی، سکندر سلطان آزاد کشمیر کے 2016ء کے الیکشن کے دوران آزاد کشمیر میں چیف سیکرٹری تھے، مجھے اچھی طرح یاد ہے، وزیر اطلاعات پرویز رشید، وزیربرائے امور کشمیر اینڈ گلگت بلتستان برجیس طاہر اور آصف کرمانی الیکشن مہم کے لیے مظفر آباد جا رہے تھے اور سکندر سلطان نے حکم جاری کر دیا تھا یہ اگر کوہالہ کا پل کراس کریں تو انہیں گرفتار کر لیا جائے اور ان کی سرکاری گاڑیاں تحویل میں لے لی جائیں۔
ن لیگ نے اس حکم پر شدید احتجاج کیا تھا، مریم نواز نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج بھی کیا تھا، تقریر بھی کی تھی اورالیکشن کمیشن کو حکومت کا آلہ کار بھی کہا تھا اور یہ بھی زیادہ پرانی بات نہیں اور یہ بھی سچ ہے سکندر سلطان راجہ وزیراعظم عمران خان اور عمران خان سکندر سلطان راجہ کو بہت پسند کرتے تھے لیکن آپ حکومت کی حماقت ملاحظہ کریں، آج چیف الیکشن کمشنر وفاقی وزراء کے خلاف پریس ریلیز جاری کر رہے ہیں اور وزراء ان پر پیسے لینے اور اپوزیشن کی سپورٹ کا الزام لگا رہے ہیں، کیا یہ بے وقوفی اور ناسمجھی نہیں ” وہ ہنسے اور کہا “حکومت سے اس کے علاوہ کیا توقع کی جا سکتی تھی”وہ رکے اور بولے ” آپ یہ دیکھیں حکومت چار وزیرخزانہ بدلنے کے باوجود مہنگائی کنٹرول کر سکی، ڈالر کی پرواز روک سکی اور نہ قرضے کم کر سکی اور یہ تینوں حکومتوں کا سب سے بڑا ڈیزاسٹر ہوتے ہیں۔
آپ پرفارمنس ملاحظہ کریں، پیپلز پارٹی نے پانچ برسوں میں 8ہزارایک سو 65ارب روپے قرضے لیے تھے، ن لیگ نے سی پیک، موٹرویز اور بجلی کے 10 ہزارمیگاواٹ کے پاورپلانٹس لگانے کے باوجود اپنی پوری مدت میں 10 ہزار 6سو 61 ارب روپے قرضے لیے جب کہ پی ٹی آئی نےتین برسوں میں 15 ہزار ارب روپے قرضہ لے لیا، یہ 2018ء میں آئے تو ملکی قرضہ25ہزار ارب روپے تھا اوریہ اب 40ہزار ارب روپے ہو چکا ہے، ملک کے اندر مافیاز صرف ڈالر کے اتار چڑھائو سے روزانہ اربوں روپے کما رہے ہیں، حکومت ایک طرف بمپر کراپ کا دعویٰ کر رہی ہے اور دوسری طرف 370ڈالر فی ٹن کے ریٹ پرایک لاکھ 20 ہزار ٹن گندم بھی خرید رہی ہے اور یہ پوری دنیا میں گندم کا سب سے مہنگا سودا ہے اور آپ حکومتی فوکس دیکھیے۔
ملک میں کاریں سستی ہو رہی ہیں اور کھانے پینے کا سامان مہنگا ہو رہا ہے لیکن وزیراعظم اس پر توجہ دینے کی بجائے الیکشن کمیشن اور میڈیا کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، وزراء ٹیلی ویژن چینلز اور بینک خرید رہے ہیں اور اتحادی وزیر سرکاری گاڑیوں میں سرکاری پروٹوکول کے ساتھ ان کے گھر جا رہے ہیں جنہیں وزیراعظم سب سے بڑا ڈاکو اور سب سے بڑا چور کہتے ہیں، کیا یہ ملک کامیڈی تھیٹر نہیں بن چکا” میں نے کہا “نہیں، ہرگز نہیں کیوں کہ میں جانتا ہوں کپتان کی نیت ٹھیک ہے” انہوں نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور اپنی کہنی میری طرف بڑھا دی۔