آج میں نے جب قلم اٹھایا تو میرے دل میں خیال آیا کہ آخر ہمارا معاشرہ کس طرف جا رہا ہے کونسی راہ ہے ان کی اور اس راہ کی منزل کون سی ہے تو خاموشی کے علاوہ کوئی جواب نہیں ملا. شاید ہم جس راستے پر چل رہے ہیں اس کی کوئی منزل ہی نہیں کیوں کہ جس معاشرے کو اپنی تہذیب اور اپنی اخلاقیات کی تعلیمات ہی یاد نہ ہو اس قوم کو کونسی منزل ملے گی اور دوسری قوموں کے سامنے اس قوم کی کیا حیثیت ہوسکتی ہے جو ہر لحاظ سے پیچھے ہو اور گری ہوئی سوچ کے ساتھ زندہ ہوں. ہم کھڑے ہو جائیں کسی سٹیج پر تو ہم کتابوں پر لکھی ہوئی باتیں کرنے لگتے ہیں کہ ہمارے معاشرے کو ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو ہمیں ایسی راہ کا چناؤ کرکے دے جس سے پوری قوم ترقی کرے. بولنے والے اکثر بولتے ہی رہتے ہیں ایسا کرلے تو ایسا ہو سکتا ہے لیکن جیسے ہی بولنے والا اس اسٹیج سے نیچے اترتا ہے وہ اپنی کہی ہوئی باتوں کو بھی بھول جاتا ہے.
ہمارا معاشرہ آج اس لئے بھی پستی کا شکار ہے کیونکہ یہاں بولنے والے زیادہ اور کام وعمل کرنے والے کم ہیں. باتیں کرنا آسان ہے اور عمل مشکل، ہم بولنا تو اچھا چاہتے ہیں سننا بھی اچھا ہی چاہتے ہیں لیکن کرنا کچھ نہیں چاہتے. تب ہی آج ہماری یہ حالت ہے کہ ہم اپنی اخلاقی اقتدار کو گنوا بیٹھے ہیں. پرانی قوموں میں ایک برائی ہوتی تھی تو اللہ رب العزت ان کو تباہ و برباد کر دیتا تھا آج ہماری قوم میں ہر برائی موجود ہے اور ہم بچے ہوئے ہیں تو یہ صرف اور صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ہے.
ہمارے معاشرے میں جھوٹ کی انتہا ہے آپ کسی کو دوست بناؤ اس میں جھوٹ خاندان میں آپس میں بے بچا اتنے بڑے بڑے جھوٹ بولے جاتے ہیں جس کا کوئی حاصل نہیں ہوتا ہم کہتے ہیں تعلق بنا ختم ہوگیا وہ بندہ بہت ہی جھوٹا تھا آپ کتنے ہی سچے کیوں نہ ہوں آپ کا تعلق کسی جھوٹے شخص سے ہو وہ آپ کو ذلیل ہی کروائے گا کہتےہیں.
آج کل ہر رشتے سے محبت اٹھ چکی ہے یہ بات بھی کافی حد تک سچ ہے کیونکہ ہر رشتہ ضرورت یا مطلب کیلئے ہی قائم ہے اور چل رہا ہے ہر رشتے میں جھوٹ ہے کےآپ کااعتبار کرنا مشکل ہے جس سے ملو وہ سامنے تو آپ کا ہے اور وہی شخص آپ کے پیچھے برائی کرتا ہے شاید یہ ہمارے معاشرے کی تربیت ہی کچھ ایسی ہے کہ ہر شخص جھوٹ چغلی اور بے ایمانی کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا کچھ ایسے واقعات ہیں انسان ہونے پر شرم محسوس ہوتی ہے یہ انسان کیوں ہیں جن کو رشتوں زبان کا کوئی خیال ہی نہیں.
ہمارے ہاں آج کل اچھی چیزیں نہیں سنی جاتی نا اچھی چیزیں پڑھی جاتی ہیں ہماری عوام کی جیسی سوچ ہے انہیں ویسی ہی گلیز اور بے ہودہ چیزیں پسند آتی ہیں ہمارے معاشرے کی سوچ ٹک ٹاکرکی نازیبا ویڈیوز تک ہی محدود ہے ان کو اچھی اور سمجھنے والی چیز سمجھ ہی نہیں آتی کیونکہ ان کے سوچنے کی صلاحیت مفلوج ہو چکی ہے ہمارے معاشرے میں میاں بیوی جیسے پاکیزہ رشتے میں بھی بے ایمانی ہے شادی سے پہلے جھوٹے وعدے قسمیں اور بعد میں عذاب جیسی زندگی یہاں تک کہ آج کل لڑکیاں شادی سے پہلے ماں باپ کے گھر خوش رہتں ہیں اور شادی ہوتے ہی وہ دنیا کی دکھی ترین عورت بن جاتی ہیں وہ اس لئے کہ سسرال والے ان کے بنیادی حقوق تک پورے نہیں کرتے لوگوں میں لالچ اس قدر ہے کہ ان کو بہو کا کھانا پینا بھی عذاب لگتا ہے.
یہاں میں جو بات کر رہی ہوں اس میں غریب گھر کی عورتوں سے لے کر امیر گھر کی عورتیں بھی شامل ہیں دونوں کا حال شادی کے بعد کافی حد تک ایک جیسا ہی ہے ہم برائی کرتے ہیں شرمندہ نہیں ہوتے اگر کبھی کوئی شرمندہ کروانے کی کوشش بھی کرے تو ہمارے پاس یہ جواب کافی حد تک مطمئن کرنے کے لئے موجود ہے کہ آج کل یہی چل رہا ہے فلاں کا نہیں پتا وہ بھی یہ کرتا ہے یعنی ہمیں اپنی اصلاح کرنا گوارا نہیں ہے ہم دوسرے پر الزام دھر کر خود کو آزاد کرواتے ہیں اور آج کل تو کچھ زیادہ ہی حال برا ہوا ہے نی برائی نے سر اٹھا رکھا ہے جس کو دیکھو اس کی ویڈیو وائرل ہو رہی ہے چاہے وہ سیاسی شخصیت ہو کوئی اداکار ہوں یا پھر پاکستان میں رہنے والا کوئی عام شخص سب کا کچھ نہ کچھ وائرل ہو ہی رہا ہے سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے ان باتوں سے،
ویڈیو سے سمجھ نہیں آتی کیا کیمرے کی سہولت اس لئے ملی ہے اس قوم کو کیمرے ان خرافات کے لیے ملے ویسے بھی آج کل اینڈرائیڈ کا زمانہ ہے سب کے ہاتھ میں موبائل کی صورت میں کیمرہ موجود ہے جو کسی نہ کسی کی ویڈیو بنانے اور وائرل کرنے کے لیے اس قوم کے ہاتھوں میں ہے میں حیران ہوں آپ اتنی گھٹیا حرکت کرتے ہوپھر اس کی ویڈیو بناتے ہوے آپ کو شرم نہیں آئی آپ لوگ کس طرح کے مسلمان ہو ایک تو زنا کرتے ہو پھر ویڈیو بناتے ہو اس کے بعد جب آپ کا مطالبہ پورا نہ ہو وہ ویڈیو وائرل کرتے ہو کیا دکھاتے ہو عوام کو یہی کہ آپ کتنے گھٹیا ہوشاید لفظوں کا استعمال اس سے بھی برا ہو جائے کیونکہ ہمارے معاشرے میں لوگ نہیں فنکار بستے ہیں ہر طرح کے فنکار
فنکار جو اپنی فنکاری دکھاتے ہیں جھوٹ بول کر بے ایمانی کر کے کبھی ایک دوسرے کی ویڈیوز بنا کر یہاں سیاسی پارٹیوں میں کاموں کی لڑائی نہیں ویڈیوز کی لڑائی ہے یہاں جس کا دور ختم ہوجائے اقتدار کم ہو اس کی ویڈیو دیکھنے کو مل جاتی ہے اور عوام کا کوئی مشن کوئی سوچ ہی نہیں کہ وہ ا اپنے ملک اور اپنی بقا کے لیے کچھ سوچیں بیمار ذہن کے لوگ یہاں بس ایک دوسرے کی ویڈیوز کا ہی انتظار کرتے ہیں اس کے علاوہ ان کو کوئی سوچ نہیں کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کچھ سوچیں
کہتے ہیں جیسی قوم ہو اسے ویسا ہی حکمران نصیب ہوتا ہے
تو یہ بات سچ ہے فنکار قوم کو حکمران بھی اپنے ہی جیسا فنکار مل گیا ہے عوام میں ہر طرح کی معاشی برائیاں موجود ہیں گناہ کو گناہ نہیں سمجھتے حلال اور حرام کا فرق ختم ہوتا جا رہا ہے علماء ملاں مولوی اپنی اپنی دکان چلانے میں مصروف عمل ہیں کسی کو قوم اور معاشرے کی تربیت کی فکر ہی نہیں کہ کوئی سچا مسیحا بن کر اس قوم کو ہوش دلاسکے اور ہمارے موجودہ حکمران فنکاروں کے فن کار ہیں فنکاری اور مکاری میں سب سے آگے جھوٹ فریب اور غلط بیانی میں ایوارڈ کے حقدار ہمارے وزیراعظم عمران خان ہیں جنہوں نے عوام کو وہ خواب دکھائے جیسے ڈبل شاہ نے بھی نہ دکھائے ہوں گے ہمارے وزیراعظم صاحب ایسے فنکار ہیں جن کی میں بہت بڑی فین ہوں کیوں کےعوام روٹی کو ترس رہی ہے پٹرول کی قیمت ہفتوں کے حساب سے بڑھ رہی ہےملک میں بھوک غربت عروج پر ہے تین سال مکمل کرنے کے بعد بھی ہمارے فنکاروزیراعظم فنکاری سے باز نہیں آئے کہتے ہیں تھوڑا مشکل وقت اور آئے گا عوام پر فنکار اپنے فن کاری نہیں چھوڑ سکتا پتا نہیں کہاں گئی 50 ہزار نوکریاں کہا گیا غریب کا مفت علاج بس ایک مکر و فریب کا جال تھا جو فنکار قوم کے لیے بنایا گیا اعلی پائے کے ایک فنکار نے اسے پتہ تھا میری عوام بڑی فنکار بنی پھرتی ہے میں ان سب کا بھی استاد ہو جھوٹ اور مکر و فریب کا باپ ہوں پاکستانیوں کی حالت مفلسی کی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اس فنکار وزیراعظم کی فنکاری سے اور مستفیض ہونا چاہتے ہیں وہ یہ الفاظ بولتے نظر آتے ہیں بندہ اچھا ہے اسے ساتھی اچھے نہیں ملے مجھے سمجھ نہیں آتی بندہ کتنا اچھا ہے جو ہر مہینے پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر دیتا ہےجوآٹے اور تیل کے بھاؤ میں روزانہ کے حساب سے اضافہ کر رہا ہے اور اس کا کوئی نوٹس نہیں لیتا بندہ اچھا ہی ہے اسی لیے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے بندہ سچ میں بہت اچھا ہے اس لئے غریب علاج بھی کروانے سے گیا بندہ اتنا اچھا ہے اسی لیے عوام روٹی کو ترسنے لگی ہے فنکار وزیر اعظم کے اپنے منہ کے الفاظ ہیں جب پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہو تو سمجھ جائیں وزیراعظم چور ہے تو عمران خان صاحب کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے وہ ضرور بتائیں کیا لکھوں اس قوم کی حالت زار پرمیرا کہنا ہے کہ فن کار کو فنکار ہی رہنا چاہیے وزیراعظم عمران خان صاحب کو وزیراعظم نہیں موٹیویشنل سپیکر ہونا چاہیے تھا جس کی ویڈیو عوام پانچ دس منٹ دیکھتی اور ختم ہو جاتی فنکار کو وزیراعظم بنا کرعوام نے اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری ہے وہ کہتے ہیں نہ اب کیا فائدہ جب چڑیاں چگ گئیں کھیت حالات ایسے ہیں کہ رو بھی نہیں سکتے اور چپ رہ بھی نہیں سکتے لیکن جب قلم آپ کے ہاتھ میں ہوں تو میری ہمیشہ سے کوشش رہی ہےکہ صرف سچ لکھو ں چاہے وہ کتنا ہی تلخ کیوں نہ ہو کے عوام کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے اس طرح کی فنکار حکومت ہمیں نہیں چاہیے جو صرف شو دکھائے اور عمل کچھ نہ کرے ہمارے ملک پاکستان کو ایسے حکمرانوں کی ضرورت ہے جو اس ملک کا بھلا چاہے اس ملک کی عوام کے لیے کچھ کرے ہمیں فنکار نہیں چاہیے ہمیں کام کرنے والا وزیراعظم چاہیے
ذرا سوچئے کیونکہ بات تو سوچنے کی ہے