آج قلم اٹھاتے ہی خیال آیا جس شخصیت کے بارے میں لکھنے جا رہی ہوں وہ تو ایک عظیم محب وطن پاکستانی اور اخلاقیات کے اعلی درجے پر فائز ڈاکٹرعبدالقدیرخان ہے جو پاکستانی قوم کے ہیرو ہے اور وہ انسان جس نے پاکستانی قوم کو ایک نیا نام دیا ایسا نام جس کےلینے سے ہی بڑے سے بڑے دشمن پاکستان سے ڈرنے لگے ایسی طاقت عطا کی کے پاکستان دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا ہے یہ عظیم انسان ڈاکٹر عبدالقدیر خان جو دس اکتوبر دوہزاراکیس کو ہم سے بچھڑ گیا اس جہان فانی سے کوچ کر گیا اس قوم کو زندہ کرنے والا انسان اس دنیا سے رخصت ہوگیا وہ انسان جو سچا پاکستانی تھا جس کی رگوں میں وطن کے لئے محبت تھی جس نے وطن کی محبت کے لئے سب کچھ قربان کر دیا اچھا مستقبل عیش و آرام کی زندگی سب کچھ چھوڑ دیا اس پاکستان کے لئے وہ انسان جو اپنے ہی ملک میں آزادانہ زندگی نہیں گزار سکا ڈاکٹر عبدالقدیر خان تیری عظمت تیری جرت کو سلام تیرے جذبے کو سلام جو تیری رگ و جان میں تھا سچا پاکستانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نایاب انسان تھا ایسا ڈائمنڈ جو اللہ تعالی کی رحمت سے ہمیں ملا ہزاروں سالوں بعد پیدا ہوتا ہے ایسا دانشور انسان جو پوری قوم کا نام روشن کرتا ہے ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک اپریل 1936 میں بھوپال انڈیا میں پیدا ہوئے اور ہجرت کے بعد پاکستان شفٹ ہوئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان یوسفزئی پٹھان تھے جوش و جذبہ ان کے خون میں شامل تھا ڈاکٹر عبدالقدیر خان پندرہ برس یورپ میں رہنے کے دوران مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بلجئیم کی یونیورسٹی اف لیوون میں پڑھنے کے بعد انیس سو چھہتر میں واپس پاکستان لوٹ آئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان ماسٹر آف سائنس جبکہ بیلجیم سے ڈاکٹریٹ انجینئرنگ کی اسناد حاصل کرنے کے بعد 31 مئی 1976 میں ذوالفقار علی بھٹو سے ملکر انجینر نگ ریسرچ لیبارٹریز میں پاکستانی ایٹمی پروگرام کے واسطے شمولیت اختیار کی بعد ازاں اس ادارے کا نام صدر پاکستان ضیاءالحق نے یکم مئی 1981 کو تبدیل کرکے ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز رکھ دیا یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے ڈاکٹر اے کیو خان نے 2000 میں ککسٹ نامی درسگاہ کی بنیاد رکھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر ہالینڈ کی حکومت نے غلطی سے اہم معلومات کے چرانےکے الزام میں مقدمہ دائر کیا لیکن ہالینڈ بیلجیئم برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسروں نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے آئی کیو خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ دائر کیا گیا ہے وہ عام کتابوں میں موجود ہے جس کے بعد ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے ان کو باعزت بری کردیا ڈاکٹر عبدالقدیر خان عظیم سائنسدان تھے جنہوں نے 8 سال کی انتہائی قلیل مدت میں انتھک محنت لگن کے ساتھ ایٹمی پلانٹ نصب کر کے دنیا کے نامور نوبل انعام یافتہ سائنسدان کو حیرت میں ڈال دیا 1998 کو آپ نے بھارتی ایٹمی تجربوں کے مقابلے میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے تجرباتی ایٹمی دھماکا کرنے کی درخواست کی بالآخر وزیراعظم نواز شریف نے چاغی کے مقام پر کامیاب تجرباتی ایٹمی دھماکے کئے اس موقع پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا پورے عالم کو پیغام دیا کہ ہم نے پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنا دیا اس طرح آپ پوری دنیا میں مقبول عام ہوئے سعودی مفتی اعظم نے عبدالقدیر خان کو اسلامی دنیا کا ہیرا قرار دیا اس کے بعد سے پاکستان کو خام تیل مفت فراہم کیا جانے لگا مغربی دنیا نے پروپیگنڈا کے طور پر پاکستانی ایٹم بم کو اسلامی بم کا نام دیا جسے ڈاکٹر اے کیو خان نے بخوشی قبول کیا پرویز مشرف کے دور میں پاکستان پر لگنے والے ایٹمی مواد دوسرے ممالک کو فراہم کرنے کے الزام کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ملک کی خاطر سینے سے لگایا اور نظر بند رہے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے 150 سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قربانیوں کو بھلایا نہیں جاسکتا انہوں نے اس قوم پر جو احسان کئے اسے چکایا بھی نہیں جا سکتا پوری قوم ان کی قرض دار ہے اس ایک شخص نے ہمیں ایٹمی پاور جیسی طاقت سے نوازا ہے لیکن افسوس کے اس وقت کے حکمرانوں نے ان کی وفات پر کچھ حق ادا نہیں کیا اس ریاست نے ان پر جو ظلم ڈھاے ان سے کون واقف نہیں ہے اتنی عظیم انسان سے ناروا سلوک رکھا گیا اس پر وہ شکوہ بھی کرتے رہے بہت بار جیو نیوز پر انٹرویو میں بتاتے رہے ہیں لیکن اس ملک کے حکمرانوں نے ان کی ایک نہ سنی اور نہ ہی ان کی قدر کی پاکستانی قوم نے عبدالقدیر خان کے احسان کو ہمیشہ یاد رکھا اور شکرگزار بھی رہے لیکن حکمرانوں نے ان کے نہ ہی احسان کو یاد رکھا نہ ہی ان کو بنیادی سہولیات فراہم کی گئیں دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ان کے نماز جنازہ پر ہمارے ملک کے معززین حکمران ہی نہیں پہنچے اس عظیم انسان کے جنازے پر حاکم وقت نہیں پہنچا جس نے پاکستان کو نام دیا ایٹمی طاقت بنایا یہ کیسا محسن پاکستان تھا جس کی نماز جنازہ میں نہ صدر پاکستان نہ وزیر اعظم پاکستان نا وزیر اعلی پنجاب نہ وزیر اعلی خیبر پختونخوا نہ وزیر اعلی بلوچستان اور نہ ہی مسلح افواج کے سربراہان شریک ہوئے کہاں گئی ان کی ہوش مندی احسان فراموش ہیں یہ حکمران پاکستان کے سیاستدان جو قوم کے ہیرو کی نماز جنازہ پر نہ آ سکے وزیراعلی سندھ کو شاید بھٹو صاحب کا احساس تھا اس لیے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کراچی سے اسلام آباد آ کر نماز جنازہ میں شریک ہوئے یہ قوم اپنے ہیروز کے ساتھ ایسا کر رہی ہے تو عام آدمی کی کیا حیثیت ہوگی ان سیاستدانوں کے سامنے؟کیا
ہمارے حکمران ایٹمی طاقت ہوتے ہوئے بھی بین الاقوامی طاقتوں سے ڈرتے ہیں یا ان کے اپنے ہی مفادات چھپےہیں جس سے قوم واقف نہیں اس عظیم انسان سے ایسا سلوک رکھا گیا کہ دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ہم کیسی قوم ہیں جسے اپنے ہیرو کی قدر نہیں اس ملک میں اس عظیم انسان کی اتنی حیثیت نہیں تھی کہ حکومت کا کوئی معزز انسان ان کے نماز جنازہ میں شریک ہو سکتا ؟کیا ریاستی حکومت اتنی بے حس ہے کہ اسے اس عظیم انسان کی خدمات ہی یاد نہیں کس دور میں ہم زندہ ہے جہاں سچے اور اچھے لوگوں کے جنازے میں ملک کے شرفااور معززین ہی شریک نہیں ہوتے؟ کیسی حکومت ہے ؟وزیراعظم عمران خان صاحب میرا آپ سے سوال ہے کیا آپ خود کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے زیادہ دانشور سمجھتے ہیں یا آپ اس قد کےانسان ہیں کہ آپ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے برابر کھڑے ہوسکے ؟نہیں عمران خان صاحب آپ محتاج ہیں اس ملک کے ہر اس شخص کے جو سچا پاکستانی اور اس قوم کا ہیرو ہے قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد اگر کسی نے ملک پاکستان کو بنایا نیا نام دیا تو وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں یاد رکھیں ان کی قربانیوں کو ان کی دی ہوئی طاقت کو جس کی بدولت آج ہم ایٹمی طاقت بنے ہیں معافی مانگے قوم سے ڈاکٹرعبدالقدیرخان سے جو سلوک آپ نے ان کے ساتھ کیا پوری قوم شرمندہ ہے کہ وہ سیاست دان وہ معززین ہی ہمارے ہیرو کے جنازے میں شامل نہیں ہوے جو ہمارے ووٹوں کے محتاج ہیں جو ریاست اپنے ہیروز اور دانشوروں کی قدر نہیں کرتی وہ ریاست کبھی ترقی نہیں کرسکتی پستی اس ریاست کا مقدر بن جاتی ہے ڈرے اس وقت سے ہوش کے ناخن لے اور قدر کریں اپنے قوم کے عظیم سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی
اللہ تعالی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور اس وقت کے حکمرانوں کو ہدایت دے کہ وہ سمجھ سکے کہ ملک کے سرمائے کی قدر کرنا ریاست پر فرض ہے
ذرا سوچئے