بابائے صحافت شہید حاجی محمدرفیق اچگزئی کی خدمات

0
89
Haji Muhammad Rafiq Achakzai

تحریر و رپورٹ
محمدنسیم رنزوریار +جعفرخان اچگزئی

قارئین کرام!! برصغیر پاک و ہند میں صحافت کا آغاز1780 میں ’ ہکی بنگال گزٹ‘نامی انگریزی اخبار سے ہوا، تب سے لے کرآج تک صحافت نے کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں اور236 سال کے اس سفر میں ہم نے کئی نامور صحافی بھی پیدا کیے ہیں۔ خبر اور تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ تمام تاریخ ایک کتاب میں سمیٹ دی گئی ہے جس کا نام ’ صحافت کی مختصر تاریخ‘ ہے اور اس کے مصنف سید بدر سعید ہیں۔تاریخ صحافت کی دنیا میں ضلع قلعہ عبداللہ و ضلع چمن کو بھی شہید حاجی محمدرفیق اچگزئی کی صحافتی اور قبائلی خدمات کی بدولت سے اعلیٰ مقام حاصل ہوا۔شدید غربت پسماندگی ناخوندگی اور قبائلی رنجشوں کی تیز آگ والی میدان میں بفضل مولا انتہائی مخلص اشخاص مختلف قوموں میں گزرے ہیں۔جسکی خدمات اورمثبت قبائلی روایات کی اقدامات سے انکے نام اور تاریخ زندہ اور تازہ ہے۔اگر چہ علاقے میں غربت اور نفرتوں کی ہوا چل رہی ہے مگر اچھے اور قابل ستائش اشخاص کی میانہ روی سے بڑی حد تک امن وامان اور عوامی خدمات کا سلسلہ وجودرکھتی ہے۔جسکے واضح اور روشن مثال بابائے صحافت شہیدحاجی محمد رفیق اچگزئی کا ہے۔جس نے وقت کے بدترین صورت حال اور انتہائی غربت اور تعصب وقومیت سے بالاتر بڑی خلوص سے ضلع قلعہ عبداللہ و ضلع چمن میں صحافتی خدمات کو احسن طریقے سے نبھاکر تاریخ صحافت کا زیب بنا۔شہید حاجی محمد رفیق اچگزئی ضلع کی سطح نہیں بلکہ صوبے کی سطح پر ایک نڈر مخلص اور باوقار بااعتماد ہر قسم لالچ وتضاد سے بالاتر صحافی شخصیت تھے۔یہ وہ عظیم انسان تھے کہ جس نے صحافت کو شہرت دولت اور اعلیٰ انتظامیہ سے تعلقات بننے کے بجائے عوامی خدمات اور ایک عبادت کی طرح سرانجام پاتے ہی اس نے اپنے بچوں کی مستقبل سنوارنے کے بجائے پورے عوام کے روشن اور ترقی یافتہ و خوشحال مستقبل کا فکر مند انسان تھے۔صبح سے لیکر شام تک غریب عوام کی خدمت میں مصروف عمل تھے۔قبائلی انتظامی اور عوامی مجالس و مباحثوں میں بہت عبور حاصل تھا۔برملا ہر مظلوم و بے بس کا ایک رعب دار آواز تھا۔ہر فلیٹ فارم پہ مظلوموں کے ترجمان کا کردار ادا کررہاتھا۔صحافت کی میدان میں یہ وہ عظیم رہبر تھے کہ جس نے اُس وقت میں ہر طرح کرپشن جائیداد اور بڑے سے بڑے سرکاری دفاتر تک ہاتھ رسائی تھا مگر تاریخ اور عوام گواہ ہے کہ بابائے صحافت کا پیسے جائیداد وغیرہ کے بجائے صرف اچھے نام خدمات اور ہردلعزیز شخصیت وراثت میں رہ گیا۔اس طرح اقدامات اور عوامی خدمات کی بدولت سے شہید حاجی محمدرفیق اچکزئی چمن شہر کیلئے ایک روشن ستارے کی مانند تھے جس نے چمن شہر میں صحافت کی بنیاد رکھی محدود وسائل اور غربت کے باوجود صحافتی خدمات جوانمردی اور بلا لالچ کے سرانجام دیئے آپ نے ایک غریب گھرانے میں آنکھیں کھولی اس وقت چند ہی گھر تھوڑے مالدار تھیں جو آج کے دور کے متوسط طبقہ کے برابر ہیں۔ آپ نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ماڈل ہائی اسکول سےحاصل کی ۔زیادہ غربت کے باعث محنت و مشقت پر زیادہ توجہ دی۔ کیونکہ والد حاجی عبدالقادر معمولی سرکاری ملازم تھے اس وجہ سے گھر کا خرچہ بڑھ جانے پر آپ نے بھی محنت و مشقت شروع کردیا جس میں اخبار فروخت کرنابھی شامل تھا ۔کوئٹہ سے پہلی چھپائی پر آپ نے مشرق اخبار کو چمن میں متعارف کرایا اور صحافتی آغاز سن 70ء کی دہائی میں شروع کیا۔ جس کے بعد مزید اخباروں کی ترسیل چمن شروع ہونے پر نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقہ کو صحافت میں اپنے ساتھ ملایا جس میں متعدد بڑے بڑے نام شامل ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ شاگرد استاد سے آگے نکلنے کی کوشش و جستجو میں رہتا ہے جس کے باعث اپنے استاد سے ایک حسد ان کے دل میں پیدا ہوجاتا ہے مگر ہمارے ہاں ایک مثال ہے زندہ ہوں تو( سب کا) جب( بچھڑجائے) تو صرف خاندان تک محدودکرلیتے ہیں آہ شہید حاجی محمد رفیق اچگزئ آپکے خدمات نہ بھلانے کی ہیں لیکن یہاں آج آپ کی یاد بہت لوگوں کو رلاتے ہیں۔آپ نے تو اپنا انسانی اور صحافتی میدان میں مقابلہ جیت لیا مگر ہم میں آج آپکی یاد تک حیات اور ہمت باقی نہ رہا ۔آپکے اجتماعی خدمات کو آج فرد فرد سلام پیش کرتاہے۔خیر یہ زندگی رواں دواں ہے وقت جاری ہے دن مہینے سال گزرتے جارہے ہیں پیدائش سے لیکر موت تک اللہ تعالی انسان کو اختیارات دیا ہیں اللہ تعالی نے کائنات اپنے مخلوقات کیلئے بنائی ہیں جس پر انس و جنس زندگی کے ایام گزاررہے ہیں ۔ دنیا کو اللہ تعالی نے جب سے وجود دیا ہے اس میں سائنس اور علماء کرام کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ کوئی ہزاروں سال تو کوئی لاکھوں کروڑوں سال کائنات کے بنے ہوئے کا دعویدار ہیں مگر اصل وقت صرف رب کائنات کو معلوم ہے اسی طرح اللہ تعالی نے انسان کو سوجھ بوجھ دیا ہے اگر انسان اچھائی کا راستہ اپنائے تو فرشتہ صفت کہلائے گا دوسرا راستہ شیطان کا راستہ ہے جس پر دنیا و آخرت کیلئے ناکامی ہی ناکامی ہے اسی طرح بابائے صحافت شہید حاجی محمد رفیق اچکزئی اپنے بہترین صفات و فرشتہ صفت طبعیت و غریب پرور ہونے پر آج بھی ہر ایک کے دل میں زندہ ہے جس پر وہ کھول کانوں میں گونجتا ہے کہ شہید مرتا نہیں آج بھی شہید حاجی محمد رفیق اچکزئی کی اچھے اوصاف کے ہر کوئی دعویدار ہیں شہید حاجی محمد رفیق اچکزئی نے ضلع چمن و قلعہ عبداللہ میں صحافت کی بنیاد رکھ کر اسی طرح بلوچستان کے اکثر علاقوں کے صحافیوں کے مسائل بھی وقتاً فوقتأ حل کرواتے تھے جس سے آج اگر صوبہ بھر میں بھی معلومات کیا جائے تو صحافت سے وابستہ ہر سنیئر صحافی شہید حاجی محمد رفیق اچکزئی کے اچھے اوصاف کے دعویدار ہونگے ہمیشہ شہید حاجی محمد رفیق اچکزئی نے اپنے مخالف کے مخالفت کو روندنے کی بجائے ان کے اصلاح کرتے رہے خاص کر نوجوان صحافیوں کے حوصلہ افزائی کیلئے بھرپور ساتھ دیتے تھے کئی نامور صحافیوں کو اپنے گاڑی میں کوئٹہ لے جاکر ان کو اپنے ساتھ رکھ کر بھرپور صحافتی ٹریننگ دیتے تھے کبھی بھی حکومتی مفادات کو ترجیح نہیں دیتے ذاتی مفادات کی بجائے ہمیشہ علاقائی مفادات کیلئے کوشاں رہتے تھے غریبوں کیلئے ہر فورم پر آواز اٹھاتے کبھی مظلوم کو ظالم کے شکنجوں میں نہیں چھوڑتے تھے انہی صفات پر آج بھی ہمیشہ مظلوم طبقہ اپنے دعاؤں میں یاد رکھتے ہیں دن ہفتہ اور سال اپنے محور میں جاری رہتے ہیں ۔ ہر انسان کے موت کا دن مقرر ہیں دنیا میں رزق کا ایک دانہ بھی مقرر ہو تو چاہیں جیسا بھی واقعہ ہوجائے اگر اللہ تعالی نے آپ کی زندگی کے مزید زندگی کے دن باقی ہو تو کچھ بھی ہوجائے آپ کے زندگی جاری رہے گی۔ اگر آپ کی زندگی کے اوراق مکمل ہوجائے تو معمولی سے معمولی واقعہ بھی آپ کے زندگی کی باب کو جاری نہیں رکھ سکتا ڈاکٹر ہو طبیب ہو حکیم ہو کوئی بھی آپ کے زندگی کے دن مزید نہیں بڑھاسکتا ۔اللہ تعالی آپ کو اپنے دیدار کا شرف دیتا ہیں اسی طرح شہید حاجی محمد رفیق اچکزئی بھی ہم سے بچھڑگئے ۔ صحافت کی بات کی جائے تو واقعی ایک حقیقی صحافی تھے شہید حاجی محمد رفیق اچکزئی نے بہتر انداز سے صحافیوں کی رہنمائی کی ان کے دور صحافت میں بھی کئی ادوار میں صحافیوں پر مقدمے بنے ان کی آواز کو مقتدر حلقوں کی جانب سے دبانے کی کوشش کی مگر بابائے صحافت شہید حاجی محمد رفیق اچکزئی ان مشکل حالات میں صحافیوں کو یکجا کرکے قانونی طریقے سے مقتدر حلقوں کو یہ باور کرواتے کہ حقیقی صحافی جس کا ضمیر قوی ہوتا حق کی آواز بلند کرنے سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا اس وقت کے سخت حالات میں ہمیشہ سرخرو رہتے نوجوان صحافیوں کو علاقائی صحافت سے روشناس کراتے کہ قبائلی علاقے میں صحافتی خدمات کس طرح انجام دینا ہے اور صحافی کبھی کسی تنظیم یا کسی ادارے کا ترجمان نہیں بن سکتا جنہوں نے نوجوانوں کو ایک بہتر صحافتی راہ فراہم کی سانحات تو رونماء ہوتے رہینگے کیونکہ فرمان الٰہی ہیں (ترجمہ :۔ ہرذی روح کو موت کا مزا چکنا ہوگا) اسی دستور پر دنیا چل رہی ہے اگر خدانخواستہ موت نہ ہوتی تو دنیا میں تل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی ۔ اسی طرح شہیدحاجی محمد رفیق اچکزئی کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کی فہرست میں جگہ دی اور اس کو ایک بہترین شہادت والی موت دی جس کی طلب اس نے ہمیشہ سے کی اور شہید کی جو موت ہے وہ اس کی حیات ہے کیونکہ شہید حاجی محمد رفیق اچکزئی نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کو گزند نہیں پہنچائی بابائے صحافت کالقب پانے والے شہید حاجی محمدرفیق اچکزئی نے ضلع قلعہ عبداللہ و ضلع چمن میں صحافت کی بنیاد رکھ کر ملکی عوامی اور انسانی خدمات کا آغاز کیا ۔اس نے صحافت جیسا پیغمبرانہ شعبہ اپنایا انہوں نے ہمیشہ ہی تلقین کی کہ جب تک سادگی سے جیو گے اللہ تعالی ساتھ دے گا۔ جب تک حلال نفقہ پیٹ تک پہنچاؤ گے زبان میں طاقت پاؤ گے۔ جب تک غریب کا ساتھ دو گے اللہ ساتھ دے گا۔ آپ نے صحافت مشرق اخبار سے شروع کی اور مشرق اخبار کے ساتھ مشرق اخبار کے شروع سے ہی وابستہ رہے مشرق اخبار کے نیوز ایجنٹ بھی تھے اور مشرق اخبار سے صحافت کاآغاز بھی کیا آپ نے صحافتی امور نامساعد حالات میں سرانجام دیئے اورکسی بھی طرح کے سہولیات نہ ہونے کے باوجود آپ نے ثابت قدمی سے صحافتی خدمات انجام دیے آپ نے ایسے دور میں صحافتی خدمات انجام دیے جس دور میں کمپیوٹر موبائل کا تصور بھی نہیں تھا اس طرح کھٹن حالات میں کبھی کسی سیاسی پارٹی سول تنظیموں کی جانب سے یہ نہیں کہا گیا کہ آپ نے ہمیں کوریج کم دیا اور ایک اکیلا صحافی ہونے کے باوجود آپ کے صحافتی خدمات کا آج بھی ہرکوئی تعریف کرتا ہے اور صحافیوں کو آج بھی شہید حاجی محمدرفیق اچگزئی کی مثالیں دی جاتی ہیں جوکہ نہ کسی لالچ و غرض کے پروگرام کے کوریج اپنا فرض سمجھتے تھے ۔جب کچھ وقت گزرا تو آپ نے پورے ضلع قلعہ عبداللہ میں صحافیوں کی تعداد بڑھائی اور ہراس جوان کاساتھ دیا جو صحافت کا شوقین تھا اوراپنے بیٹوں سے بڑھ کر ان جوانوں کا ساتھ دیا اور کبھی بھی یہ فرق نہیں رکھا نوجوانوں کو صحافت میں آگے بڑھنے کیلئے تمام گن سکھائے۔ شہید حاجی محمدرفیق کی باتیں آج بھی ذہین میں نقش اور دل پر ثبت ہیں جس کے بارے میں آپ نے جوکہا اس نے آپ کی شہادت کے بعد اپنے آپ کو اسی طرح دکھایا ۔ شہید حاجی محمدرفیق اچکزئی نے ہمیشہ حق کاساتھ دیا اور ایک مخصوص طبقے کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رکھا کبھی بھی اونچے طبقے کے ساتھ زیادہ تعلقات نہیں رکھے سادگی سے زندگی گزارتے تھے ہمیشہ دوسروں کو کھلایا کبھی بھی مہمان کا استقبال خندہ پیشانی سے نہیں کی بلکہ مہمان کو دیکھ کر کافی خوش ہوتے تھے آپ کے سخاوت سے آج تک چمن کے عوام متاثر ہیں کبھی بھی روٹی کھلانے کے بعد اس پر احسان نہیں جتایا جب بھی ہم کہتے تھے کہ فلاں نے یہ عمل کیا یہ تو آپ کے دسترخوان کا دوست تھا مگرآپ کا جواب معقول ہوتاتھا کہ رزق اللہ تعالیٰ کی جانب سے لکھا ہے صرف سبب میں ہوں آپ کا عقیدہ پور ی زندگی ہی رہاکہ رزق دینے والا ذات اللہ تعالیٰ ہے صرف سبب انسان ہے آپ نے ہمیشہ اپنے دسترخوان پر غریب اور امیر کو ایک جگہ پر بٹھایا اورایک جیسا کھانا کھلایا۔ آپ کے دسترخوان پر آ پ کے ساتھ کھانے والے آج کے بڑے بڑے اعلیٰ آفیسران بیوروکریٹ کے عہدوں پر تعینات ہیں آپ غریب پرورتھے اورآپ کی سادگی دیکھ کر کوئی بھی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ آپ کس پائے کے انسان ہے آپ کے تعلقات چاہے جتنے اعلیٰ شخصیات کے ساتھ ہو آپ نے ہمیشہ علماء کرام اورغریب ومڈل طبقے کے ساتھ بہترین تعلقات رکھے اورعلماء کرام کو خصوصی عزت دیتے تھے اورہمیشہ اپنا مخصوص جگہ بھی خالی کرتے تھے اوراپنے سامنے رکھاہوا ان کے سامنے رکھتے تھے آپ نے ہمیشہ انسانیت کی قد ر کی اورانسان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا آپ نے صحافت کو پروان چڑھانے کیلئے علاقے کے نوجوانوں کی بہترین رہنمائی کی جبکہ آج کے دور میں حالات اس کے برعکس ہیں۔ آپ نے ہمیشہ اچھا کرنے کی تلقین دی جس پر چل کرہی انسان اللہ کی راہ پر چل سکتا ہے اسی بہترین خصوصیات پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو شہادت جیسے اونچے مرتبے پر فائز کردیا وہ سانحہ والا دن آج بھی یاد ہے جب آپ کو شہید کردیا گیا مگر جو اللہ کو منظور ہوں وہ پوری دنیا ایک ہوکر بھی نہیں ٹال سکتا آج آپ کی شہادت کو 13 سال گزر چکے ہیں مگر آپ ہمیشہ دلوں میں زندہ و جاویداں رہے گے انشاءاللہ آپ کے نقش وقدم پر چل کر علاقے میں بھلائی ہی بڑھے گے ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا