صاحب! نقلی بتیسی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے انسان دانتوں کی مروجہ تقریباً تمام موروثی اور غیر موروثی بیماریوں سے بچ جاتا ہے۔ اس کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوا جب ڈاکٹروں نے ہماری بتیسی کا اپنی گنہگار آنکھوں سے معائنه فرمایا اور طبی لحاظ سے ان کو انسانی صحت کےلیے زہر قاتل قرار دے دیا، بلکہ مشورہ دیا کہ دانتوں کی موجودہ عددی صورت حال کو جمہوریت کے تناظر میں دیکھیں، لہٰذا آپ مسوڑھوں کے ڈاکٹر سے رجوع فرمائیں تو مہربانی ہوگی۔
واضح رہے بتیسی کا لفظ لغوی معنوں میں ہے، کیوں کہ اب آدھے اور تقریباً پورے دانتوں کو ملا کر بھی گنتی بائیس سے آگے نہیں بڑھتی۔ ان میں وہ بھی شامل ہیں جنھوں نے ملکی سیاست سے متاثر ہوکر اپنے آپ کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کردیا ہے۔
معائنے کے بعد ڈاکٹر نے ان کھوکھلے دانتوں کا خیال رکھنے کی اس قدر تاکید فرمائی کہ مجھے یقین ہوگیا ان سے جدائی کا وقت آن پہنچا ہے۔ ساتھ ہی ایک لمبی لسٹ، جن کو نہ کھانے کی سخت تاکید موجود تھی۔ یہ کہنا غیر ضروری ہے کہ اس لسٹ میں غذائی اجزا کے تمام اجناس موجود تھے، جن پر ہماری BUDS TASTE دل و جاں سے فریفتہ ہیں۔
پلان “B” کے طور پر ایک دوسری فہرست بھی تھمائی گئی۔ جسے پلان “A” پر عمل نہ کرنے کی صورت میں استعمال کرنا تھا اور اس میں دانتوں کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ فہرست “B” میں ’’کھچڑی‘‘ نامی تابکار عنصر کا تذکرہ تھا، جسے بندہ عموماً داعیٔ اجل کو لبیک کہنے سے قبل ہی استعمال کرتا ہے۔
یوں تو ڈاکٹروں کے پاس جاتے ہوئے ڈرنے کی متعدد وجوہات ہیں، جن کا تذکرہ یہاں نہ کرنا دنیا و آخرت میں خیروعافیت کی ضمانت ہے۔ جیسے بعض شرپسند احباب کا خیال ہے کہ چونکہ ہماری سالی (رشتہ دار کے معنوں میں لیں) ڈاکٹر ہے، اس لیے ہم یہ کہہ رہے ہیں۔ حالانکہ اس قسم کے رشتوں کے آگے خوائف دیگر کا ذکر ضمناً ہی استعمال ہوتا ہے۔ بس اس موضوع پر اس سے زیادہ اور کچھ نہ کہوں گا۔
دانتوں کے ڈاکٹر کا فولادی انجکشن وہ آلہ ہے، جس کو دیکھتے ہی ہم پر غشی سی طاری ہوجاتی ہے اور یوں لگتا ہے کہ دل کی شریانوں پر کوئی فوجی بوٹ سمیت مارچ کررہا ہو۔ ہم نے دوران علاج کئی دفعہ ڈاکٹر صاحب کو اشارتاً کہا کہ دہشت گردی کی اس واردات سے قبل کوئی بیہوشی کا انجکشن ہی لگادیں۔ مگر زیادہ اصرار پر وہ ایسے دیکھتے جیسے ہمیں ROOT CANAL کی نہیں، بلکہ total frontal lobotomy کی ضرورت ہو۔
طبی امداد کے خاتمے کے بعد جاتے جاتے ڈاکٹر نے رفع حیرت کے لیے پوچھ ہی لیا ’’یہ دانتوں کے اوپر چاکلیٹ کی تہہ بچپن سے تھی کیا؟‘‘ اس پر ہم نے جھٹ سے بچپن کی وہ تصویر نکال دکھائی جس میں، میں اور میرے دادا ایک ساتھ ایک ہی حلیے میں کھڑے تھے، یعنی دونوں گنجے اور دونوں کے منہ میں اک اک دانت کسی آمر کی طرح تنا کھڑا تھا۔ اب یہ علحیدہ بات ہے کہ اس دفعہ ہمارے باقی ماندہ دانتوں کو ڈاکٹر نے جس طرح ڈرل کیا، اس سے لگتا ہے دوبارہ ڈینٹسٹ کو دکھانے کےلیے ہمیں منہ کو جمہوریت کے بجائے آمریت کے تناظر ہی میں دیکھنا پڑے گا۔