پہلی بیوی کو سب سے پہلا دکھ اپنی تذلیل کا لگتا ہے کہ اس پر سوتن آئی تو اس کا مطلب ہے اس میں کمی تھی۔
مرد اور عورت کو اللہ نے برابر نہیں پیدا کیا۔ ان کے لیئے احکامات ایک نہیں۔ ان کے لیئے آزادیاں ایک نہیں۔ ان کے لیئے پابندیاں ایک نہیں۔ خواتین کو عبادات کی اتنی چھوٹ اللہ نے دی ہے۔ مرد کو نہیں دی۔ مرد کی ضروریات اور عورت کی ضروریات الگ ہیں۔ مزاج الگ ہیں۔ اللہ نے مرد کو اجازت کیوں دی، یہ ایسی ہی بحث ہے کہ اللہ نے عورت کو بچہ جننے کی صلاحیت کیوں دی۔ عورت کو وراثت میں ایک حصہ کیوں ملتا ہے۔ عورت کو عبادات کی چھوٹ کیوں ہے۔
ساری مسلم دنیا کے مرد اس سہولت کا فایدہ اٹھاتے ہیں۔ وہاں کی عورت تذلیل نہیں محسوس کرتی۔ برصغیر کی عورت ہی محسوس کرتی ہے۔ اس لیئے ہم کہہ سکتے کہ مسئلہ برصغیر کی عورت میں ہے۔
اگر آپ کے میاں نے دوسری شادی کر کے آپ کو گھر سے نہیں نکالا، طلاق نہیں دی، خرچہ نہیں روکا، تو اس نے آپ پر کوئی ظلم نہیں کیا۔ خود ترسی سے نکلیئے۔
دوسری بات ایسے موقع پر اپنے شوہر کو خود سے دور آپ خود کرتی ہیں۔ ایک کام اس نے کر لیا۔ اب وہ گھر آتا ہے آپ بات نہیں کرتی۔ مسلسل لڑتی ہیں۔ روتی چیختی چلاتی ہیں۔ وہ کچھ وقت برداشت کرے گا پھر چڑ جائے گا۔ دوسری طرف شادی نئی ہے۔ آپ کی یہ لڑائی اگلی کا گھر مضبوط کرے گی۔ آپ کو فایدہ نہیں دے گی۔ اگر آپ اس کو آپ ی تذلیل سمجھیں گی تو آنا میں آئیں گی اور آنا کا زخم خوردہ شخص صرف اپنا نقصان کرتا۔ آپ روٹھیں۔ آپ کا حق ہے۔ لیکن ایک حد تک۔ آپ کا silent treatment شوہر کو آپ کی طرف مائل کرے گا۔ یہ وہ وقت ہو گا جب آپ اپنا معاشی تحفظ یقینی بنا سکتی۔ شوہر سے صاف کہیں کہ دیکھیں شادی آپ کا حق تھی، آپ نے کی۔ عدل میرا حق ہے۔ میں اپنا حق معاف نہیں کروں گی۔
شوہر کے لیئے عدل کو مشکل نہ کریں۔ ورنہ اگر کسی کشمکش میں شوہر بیزار ہوا تو نقصان اکیلی آپ کی سوتن کا نہیں۔ آپ کا بھی ہے۔
اس سب میں اپنے بچوں کو نہ استعمال کریں۔ یاد رکھیں اولاد صرف شادی تک وفادار ہے۔ شوہر بیوفا بھی ہو تو بھی سر کی چھت ہے۔ آج آپ اولاد کو باپ کے خلاف کھڑا کریں گی، کل کو اولاد کی پریکٹس ہو گئی ہو گی۔ ان کی بیوی آئے گی تو ذرا سی چنگاری دکھا کے آپ کے خلاف کھڑا کر دے گی۔
آپ کی اولادیں اصل میں ذہنی مریض دوسری شادی کی وجہ سے نہیں بنتی۔ فریقین میں کسی ایک کی غلط تربیت اور غلط روئیوں کی وجہ سے بنتی ہیں۔ کسی بھی انسان کا روئیہ غلط ہو تو اس روئیے کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ نہ کہ اللہ کی حکمت پر انگلی اٹھانے کی۔
آخر پر ایک بات، شوہر انصاف نہیں کرتا تو آپ الگ ہونے میں حق بجانب۔ سوکن آپ کے خلاف ورغلا رہی تو آپ مظلوم۔ لیکن اگر واحد ضد یہ ہے کہ میں نے نہیں بانٹنا کیونکہ میں نے نہیں بانٹنا تو بیبیو مر کے اللہ کے پاس ہی جانا ہے۔ یہ ساری ضدیں دنیا میں چل جاتی ہیں۔ جس بات کی اللہ نے اجازت دے رکھی، اس کی اللہ کے دربار میں دہائی کیسے دو گی۔
میں اس کے ساتھ ہی سب دلائل اور بحث سمیٹ رہی۔ اسلام کے احکام مکمل ہیں۔ یہ کچھ بھولے اسباق تھے۔ اس لیئے یاد کروا دئیے کہ شاید کسی کو بھول گئے ہوں۔ اور ذرا سا دہرا دئیے جائیں تو لوگ ایک حلال پر لوگوں کی زندگیاں حرام کرنی بند کر دیں۔ باقی ہدایت کی ذمے داری انبیاء کی بھی نہیں تھی۔