عاشق انسانیت – عائشہ تحسین

آج جو بات میں کرنے جا رہی ہوں اس کو پڑھنے کے لیے دل و دماغ کو کھول کر پڑھئے گا اس لیے کہ ہر معاملے کو جذباتی رو سے نہیں دیکھا جا سکتا. جذبات میں کیے گئے فیصلے اکثر غلط ہوا کرتے ہیں جو صرف وقتی لحاظ سے بہتر ہو سکتے ہیں. لیکن اس فیصلے کا دیرپا اثر نہیں رہتا.
اب بات کرتے ہیں یہاں کل کے واقعہ کی جو پشاور کی عدالت میں پیش آیا یہ معاملہ بہت ہی نازک ہے اس لئے لفظوں کا چناؤ بہترین ہونا چاہیے تاکہ بات پڑھنے والے کی سمجھ میں آ سکے. کل پشاور کی عدالت میں انتہائی حیرت کن واقعہ پیش آیا جب توہین رسالت کے ملزم طاہر نسیم کو جج کے سامنے کمرہ عدالت میں گولی مار دی گئی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گیا.
مقتول طاہر نسیم پر تعزیرات پاکستان کے سیکشن 295 کے تحت توہین رسالت کا مقدمہ درج تھا اور آج اسے سماعت کے لیے عدالت میں پیش کیا گیا تھا. جب یہ واقعہ پیش آیا تو شوکت اللہ عدالت میں موجود تھے اور کیس کی سماعت شروع ہو چکی تھی. فائرنگ کرنے والا ملزم کمرہ عدالت میں موجود تھا جہاں اس نے دوران سماعت جرت کے ساتھ پولیس اہلکار سے پستول چھین کر گولی چلا دی اور توہین رسالت کا مجرم موقع پر ہی دم توڑ گیا.
پولیس نے فائرنگ کرنے والے کو کمرہ عدالت میں ہی گرفتار کرلیا جس کا نام خالد خان ہے جو پشاور کے بورڈ بازار کا رہنے والا ہے. جس نے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا حق ادا کر دیا اور گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جہنم رسید کر دیا. اس نے ایک مسلمان ہونے کے ناطے بہادری کا کام کیا ہے ہماری پوری قوم عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو برحق مسلمان ہیں ان میں ۔میں بھی شامل ہوں میں بھی عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں ان کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے. ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں دل و دماغ سے اس بات کا اقرار کرنے سے ہی ہم مکمل مسلمان بنتے ہیں جو عاشق رسول نہیں اس کا دین ہی مکمل نہیں.
سوشل میڈیا پر لاکھوں لوگوں کو دیکھا جنہوں نے خالد خان کے اس کام کو سراہا ہے ان لوگوں میں میں بھی شامل ہوں لیکن اگر بات کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہیں جہاں اکثریت میں مسلمان آباد ہیں اس لیے اس بد بخت انسان گستاخ رسول کو سزا قانون کے مطابق ملنی چاہیے تھی اور خالد خان کو قانون ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے تھا کیونکہ کمرہ عدالت میں قتل کوئی چھوٹی بات نہیں ہے. خیر خالد خان نے جرات کا کام کیا شاید اسے معلوم تھا کہ ہمارے ہاں عدالتوں میں مجرموں کو سزا بہت دیر سے دی جاتی ہے کیونکہ یہاں کبھی تو تاریخ نہیں ملتی یا گواہ ہی پیش نہیں ہو پاتے اور بعض دفعہ تو تاریخیں ہی اتنی لمبی دے دی جاتی ہیں کہ لواحقین بھی تنگ پڑ جاتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں عدالتی نظام کمزور ہے شاید انہی باتوں کو سوچ کر خالد خان نے اس گستاخ کا فیصلہ جلد کر دیا .
خالد خان عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھا اس لیے اس نے جرت کے ساتھ گستاخ رسول کو گولی مار دی میرا سوال یہ ہے سب لوگوں سے کہ یہاں کوئی عاشق انسانیت ہے یہاں کوئی انسانوں سے عشق کرنے والا پیدا ہوگا جو ان معصوم بچوں کے مجرموں کو جہنم رسید کر سکے جو کسی کی ماں کی گود کو اجاڑ دیتے ہیں اور اس معصوم بچے کی زندگی تباہ کر دیتے ہیں جس نے دنیا میں مشکل سے پانچ سات سال گزارے ہوتے ہیں جسے دنیا تک کی سمجھ نہیں ہوتی اور یہ شیطان نما لوگ ان معصوم بچوں کے زندگی کھا کر کھلے عام پھر رہے ہوتے ہیں عدالتوں میں ان مجرموں کو سزائیں نہیں ملتی ملزم بری ہوجاتے ہیں کیونکہ بچے مرتے ہوئے ساتھ گواہ لے کر نہیں مرتے والدین کے پاس ثبوت نہیں ہوتے مجرم کو مجرم ثابت کرنے کے لئے اور بالآخر مجرم کی ضمانت ہوجاتی ہے اور یہ نسور بن کر معاشرے میں کھلے عام پھرتے ہیں اور افسوس کے ساتھ یہ بات کہتی ہوں کہ یہاں جانور تک محفوظ نہیں انسانوں سے
اللہ رب العزت نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ہے اور ہم انسانیت کے درجے سے ہی نیچے گر چکے ہیں اس لیے میں چاہتی ہوں کہ کوئی عاشق انسانیت پیدا ہو جو ان بدبختوں کو سزا دے سکے کیونکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے ہمیں انسانیت کا درس دیا وہ تو کافروں کو بھی انسان سمجھ کر معاف فرما دیتے تھے وہ رحمت اللعالمین ہیں دو جہانوں کے لیے لیکن ہم تو ان کو ماننے والے ہیں ہم تو خود کو عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں تو پھر ہم ان کی تعلیمات کو کیوں بھول گئے ہیں اک عاشق تو محبوب سےبے حد عشق کرتا ہے اور محبوب کی ہر بات کو مقدم سمجھتا ہے تو پھر ہم کیوں اپنی پٹریوں سے اتر گئے ہیں
جس ذات پاک سے ہم عشق کا دعوی کرتے ہیں اس کو ماننے والوں کی تو حفاظت کریں انسانیت کی خاطر ایک دوسرے کو بخش دے ایسا نہ ہو کہ ہماری آنے والی نسلیں تباہ ہو جائیں اور ہم عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم نام کے رہ جائیں اور عشق انسانیت کو روند کر رکھ دیں یاد رکھیں ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اس لئے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو میں بھی ہوں آپ لوگ بھی ہیں لیکن خدارا کوئی عاشق انسانیت والا پیدا ہو جو اس شیطان کو سزا دے سکے جو ہماری نسلوں کو اجاڑ کر خوف پھیلا رہا ہے ہمارے بچوں سے آنے والی نسلوں سے آزادی سے جینے کا حق چھین رہا ہے کوئی خالد خان کی طرح انسانیت سے عشق کرنے والا بھی اٹھ کر ان شیطانوں کو بھی جہنم رسید کر سکے کیونکہ میرے خیال میں عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس دور میں عاشق انسانیت والے کا پیدا ہونا بھی بہت ضروری ہے
ذرا سوچئے کیونکہ بات تو سوچنے کی ہے

Ayesha Tehseen: عائشہ تحسین معروف صحافی اور کالم نگار ہیں جن کے کالمز مختلف اخبارات اور رسالوں کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ عائشہ تحسین کالم نگاری کے ساتھ ساتھ شاعری کا بھی ذوق رکھتی ہیں۔