“ہماری مشکلات شروع ہی میں اسٹارٹ ہو گئی تھیں، میاں نواز شریف جیل میں تھے، خزانہ خالی تھا، دوست ملکوں نے ہاتھ کھینچ لیا تھا اور مغربی اتحادیوں نے فوجی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا، ہم نے اوپر سے جلدبازی میں اینٹی کرپشن مہم بھی شروع کر دی، جنرل مشرف پہلے احتساب پھر سیاست کا نعرہ لگا رہے تھے، ہمارے جیسے ملکوں میں احتساب کا نعرہ سننے میں بہت اچھا لگتا ہے لیکن یہ عملاً ممکن نہیں ہوتا، گنجی کو نہانے اور نچوڑنے کے لیے بال چاہیے ہوتے ہیں اور چھوٹی معیشتوں میں بال، صابن اور پانی تینوں نہیں ہوتے چناں چہ ان کے سر پر جب بھی احتساب کا صابن لگایا جاتا ہے تو یہ مزید خراب ہو جاتی ہیں۔
ہم نے بھی جب احتساب شروع کیا تو معیشت کا بیڑہ غرق ہو گیا، تاجروں، بزنس مینوں اور صنعت کاروں نے کام بند کر دیا، بیورو کریسی فائلیں دبا کر بیٹھ گئی اور سرمایہ کاروں نے اسٹاک ایکسچینج سے رقم نکال لی، آپ اگر یاد کریں گے تو آپ کو 2000 کا پورا سال مشکل نظر آئے گا چناں چہ ہم نے فیصلہ کیا ہمیں امریکا اور سعودی عرب کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے لیے نواز شریف کو رہا کرنا پڑے گا ورنہ ملک چلاناممکن نہیں ہو گا، جنرل پرویز مشرف راضی نہیں تھے لیکن ہم نے انھیں سمجھایا اور یہ بالآخر مان گئے۔
سعودی عرب کے ولی عہد پرنس عبداللہ نے رفیق حریری کو نامزد کر دیا اور یوں دسمبر 2000 میں شریف فیملی جدہ چلی گئی، اس کے بعد بل کلنٹن اور سعودی شاہی خاندان کے ساتھ ہمارے تعلقات نارمل ہو گئے لیکن ہمیں اس کے باوجود محسوس ہوتا تھا ہمیں جلد سے جلد الیکشن کرا کے فوج کو اقتدار سے نکال لینا چاہیے مگر پھر غیبی مدد آئی اور گیم بالکل بدل گئی اور وہ غیبی مدد تھی نائین الیون، میں آج بھی یہ سمجھتا ہوں اگر نائین الیون نہ ہوتا اور امریکا کو پاکستان کی ضرورت نہ پڑتی تو ہم 2002 میں سیاست سے نکلنے پر مجبور ہو جاتے”۔
یہ کون ہیں اور یہ انکشافات انھوں نے کیوں کیے میں سردست آپ کو یہ نہیں بتا سکتا تاہم اتنا بتا دیتا ہوں یہ جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھی تھے، یہ 12 اکتوبر 1999کی تبدیلی کا حصہ بھی تھے اور 2005 تک “پاور کوریڈورز” میں بھی رہے تھے، مجھے بے شمار مرتبہ ان سے ملاقات کا موقع ملا، یہ مجھے ہر بات صاف بتا دیتے تھے لیکن ان کی صرف ایک شرط تھی میں کبھی ان کا نام نہیں لوں گا، یہ آج دنیا میں نہیں ہیں مگر میں اس کے باوجود اپنا وعدہ نبھا رہا ہوں، ان کا کہنا تھا” نائین الیون سے جنرل پرویز مشرف اور پاکستانی معیشت دونوں کو بہت فائدہ ہوا۔
دنیا بھی جنرل مشرف کو یونیفارم میں تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئی اور ہمیں بے تحاشا ڈالر بھی ملے، یہ ڈالر ملکی معیشت کو زمین سے آسمان تک لے آئے، ملک میں پیسے کی فراوانی ہو گئی لیکن اس کا ایک نقصان بھی ہوا اور یہ نقصان ناقابل تلافی تھا، ہم نے طالبان کو اپنا دشمن بنا لیا، امریکا، روس اور افغانوں کی جنگ پاکستان میں داخل ہو گئی اور اس جنگ کا واحد ٹارگٹ تھی پاک فوج، ہم اس دلدل میں دھنس گئے، ہمارے پاس اس وقت دو محاذ تھے۔
ہم طالبان سے بھی لڑ رہے تھے اور جنرل پرویز مشرف کی حکومت کو بھی بچا اور چلا رہے تھے اور فوج خواہ امریکا ہی کی کیوں نہ ہو یہ بیک وقت دو کام نہیں کر سکتی، جنرل مشرف فوج کے سربراہ تھے، یہ بہت جلد صورت حال کی نزاکت کو انڈرسٹینڈ کر گئے لہٰذا مجھے نئی سیاسی جماعت بنانے کا حکم دیا گیا اور میں نے ایک مہینے میں پاکستان مسلم لیگ (قائداعظم) کے نام سے کنگز پارٹی کھڑی کر دی، وہ بھی ایک دل چسپ دور تھا، ہم جس کو بھی فون کرتے تھے وہ دوڑ کر ہمارے ٹوکرے کے نیچے آ جاتا تھا، ہم اگر کسی کو نہیں بلاتے تھے تو وہ ہم سے شکایت کرتا تھا۔
سر آپ نے مجھے نہیں بلایا، آپ مجھ سے کیوں ناراض ہیں؟ ہمارا ایک افسر مظفر گڑھ میں تعینات تھا، ہمیں وہاں سے ایک طاقتور سیاسی فیملی کا کوئی نیا چہرہ چاہیے تھا، افسر نے اس فیملی کے ایک نوجوان سے کہا، اس نے جواب دیا، میں بی اے نہیں ہوں، کھانے کی میز پر اس کی ہمشیرہ بیٹھی تھی، وہ فوراً بولی، بھائی میں گریجویٹ ہوں، بھائی نے تائید کر دی، وہ خاتون منتخب ہو کر آئی اور بعدازاں وزیر بن گئی، ہم بہرحال اقتدار جلد سے جلد سویلینز کے حوالے کرنا چاہتے تھے اور اپنی ساری توجہ “وار اینڈ ٹیرر” پر رکھنا چاہتے تھے۔
قصہ مختصر 2002 کے الیکشن ہوئے اور ہم نے جوڑ جاڑ کر حکومت بنا دی، میرظفراللہ جمالی وزیراعظم بن گئے، ہمیں انھیں وزیراعظم بنوانے کے لیے مولانا اعظم طارق کا ووٹ بھی لینا پڑ گیا تھا، نئی حکومت بن گئی مگر یہ چل نہیں رہی تھی، کولیشن تھی، وزیراعظم ناتجربہ کار تھے، ملکی حالات خراب تھے، وزراء وزیراعظم سے زیادہ تگڑے تھے، روز کوئی نہ کوئی نیا کٹا کھل جاتا تھا، ملک میں ڈالرز آ رہے تھے لیکن ان ڈالرز سے ملکی معیشت چلانے کے لیے پالیسی چاہیے تھی اور وزیراعظم میں یہ کیپسٹی نہیں تھی، ان کی شخصیت بھی کم زور تھی، یہ دوسرے سربراہان مملکت کو فیس نہیں کر پاتے تھے، شوکت عزیز اس وقت وزیر خزانہ تھے، وہ وزیراعظم کے مقابلے میں زیادہ پاپولر تھے اور ان کو بات کرنے کا ڈھنگ بھی آتا تھا چناں چہ جنرل پرویز مشرف کو جلد صورت حال کا ادراک ہو گیا۔
وہ جان گئے وہ اگر بیک وقت سول اور ملٹری اقتدار کو انجوائے کرنا چاہتے ہیں تو پھر انھیں ایک اہل وزیراعظم اور ماہروائس چیف آف آرمی چاہیے لہٰذا انھوں نے شوکت عزیز کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کر لیا، چوہدری نہیں مان رہے تھے لیکن یہ پھر پنجاب کی گارنٹی پر مان گئے، میں نے انھیں یقین دلادیا شوکت عزیز پنجاب کو نہیں چھیڑیں گے اور یوں شوکت عزیز آ گئے اور یہ ایک “گڈ چوائس” ثابت ہوئے، پاکستان نے ان کے دور میں واقعی ٹیک آف کیا، معیشت بھی بہتر ہو گئی، ملک میں استحکام بھی آ گیا، انڈسٹری بھی چل پڑی اور عام لوگوں کی حالت بھی بدل گئی۔
وہ واقعی گولڈن ٹائم تھا، اگر جنرل پرویز مشرف لالچ نہ کرتے، یہ اپنے اقتدار کے لیے بے نظیر بھٹو کو این آر او نہ دیتے تو ملک کو دھچکا نہ لگتا، جنرل مشرف نے این آر او دے کر بڑی غلطی کی تھی، انھوں نے جب بے نظیر بھٹو سے رابطے شروع کیے تھے تو اسٹیبلشمنٹ ناراض ہو گئی تھی اور یہ تاثر عام ہو گیا تھا جنرل مشرف نے صرف اپنے اقتدار کے لیے ایسا کیا چناں چہ پھر چیزیں ایک ایک کر کے جنرل مشرف کے ہاتھ سے نکلنے لگیں، نوازشریف بھی واپس آئے، لال مسجد کا واقعہ بھی ہوا، وکلاء تحریک بھی چلی اور آخر میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا واقعہ بھی پیش آ گیا۔ یوں جنرل مشرف نے دباؤ میں آ کر یونیفارم اتار دی، فوجی قیادت بدل گئی اور آخر میں وہ سارا دور قصہ پارینہ بن گیا اور پلوں کے نیچے سے دھڑادھڑ نیا پانی گزرتا چلا گیا”۔
یہ ماضی کا ایک چھوٹا سا “انفارمیشن بیسڈ” تجزیہ تھا، یہ تجزیہ ایک اِن سائیڈر نے کیا تھا اور یہ بڑی حد تک حقیقت پر مبنی تھا، ہم اگر آج کی سیاست کو اس فریم میں رکھ کر دیکھیں تو ہمیں ماضی اور حال میں بے شمار چیزیں یکساں نظر آئیں گی، آج ہر شخص یہ مان رہا ہے عمران خان بھی میرظفر اللہ جمالی جیسی غلطی ہیں، یہ تجربے کی کمی کا شکار بھی ہیں اور حکومت بھی اتحادی پارٹیوں پر کھڑی ہے، ایک آدھ پایا کھسکنے کی دیر ہے اور یہ حکومت گرجائے گی، عمران خان اگر 2018 کے بجائے 2023 کا انتظار کر لیتے، یہ مضبوط اپوزیشن بن کر سامنے آتے، اپنے لوگوں کو ٹرینڈ کرتے اور اپنے حلقے مضبوط بنا لیتے تو یہ مانگے تانگے کے لوگوں سے بھی بچ جاتے، یہ زیادہ میچور بھی ہو جاتے اور ان کے لوگ کے پی کے سے تجربہ لے کر وفاق میں بھی آ جاتے تو شاید آج حالات مختلف ہوتے لیکن جلدبازی میں غلط فیصلے ہوئے اور یہ فیصلے پورے ملک کو لے کر بیٹھ گئے، یہ تاثر بھی ابھر رہا ہے یہ سسٹم اگر پانچ سال پورے کر گیا تو معیشت اور ملک دونوں چلانے کے قابل نہیں رہیں گے۔
ہم آج لاکھ آنکھیں بند کریں لیکن ہمیں یہ حقیقت ماننا ہوگی مولانا فضل الرحمن پورے سسٹم کے لیے خطرہ بن چکے ہیں، ان کے خلاف کریک ڈاؤن حکومت کا رہاسہا بھرم بھی ختم کر دے گا، مریم نواز بھی تیزی سے لیڈربن رہی ہیں اور یہ مکمل طور پر اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں، یہ بھی پانچ دس برسوں میں خطرہ ثابت ہوں گی، عمران خان ٹھیک ہیں لیکن ان کا فوکس ٹھیک نہیں، انھوں نے غلط بیٹنگ کر کے میچ کو مشکل بنا لیا اور یہ اب میچ نہیں جیت سکیں گے۔
حالات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مشکل سے مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں اور محسوس ہوتا ہے یہ حالات اب ایک نیا شوکت عزیز تلاش کر رہے ہیں، ایک ایسا شخص جو ملک کو بھی ٹریک پر لے آئے اور کندھوں کا بوجھ بھی ہلکا کر دے، میں نجومی نہیں ہوں لیکن اب حکومت کے اپنے نجومی کہہ رہے ہیں “یہ بجٹ ہمارا آخری بجٹ ہو گا” میں ان سے پوچھتا ہوں کیسے؟ تو یہ مسکرا کر جواب دیتے ہیں، آپ آصف علی زرداری کی بات سنیں، یہ بار بار کہہ رہے ہیں اِن ہاؤس تبدیلی، تحریک عدم اعتماد، اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے اڑھائی سال کے لیے ایک نیا شوکت عزیز اور میں مسکرا کر آگے چل پڑتا ہوں، کیوں؟ کیوں کہ اب کوئی اور آپشن نظر نہیں آ رہا۔